Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Teen Age

Teen Age

ٹین ایج

یہ عمر ایسی ہوتی ہے۔ جس میں کسی بھی انسان کا آئندہ آنے والے وقت میں معاشرے میں اس کا رول طے ہو جاتا ہے۔ اور یہی عمر سب سے زیادہ توجہ کی متقاضی ہوتی ہے۔ چاہے وہ والدین کی طرف سے ہو۔ اسا تذہ کی طرف سے یا پھر معاشرہ جو اس کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ بفضل ربی ہمارے ملک میں ٹین ایج کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ ہمارے والدین کو تعلیمی اداروں اوربالخصوص پورے معاشرے کو اس ٹین ایج کلاس پر سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔

اس کو برائیوں۔ منشیات، دہشت گردی، اس جیسے منفی کاموں سے محفوظ کرنا ہو گا۔ یہی ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں۔ آج ان پرکی گئی سرمایہ کاری آنے والے وقت میں اس ملک کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ ہماری بد قسمتی رہی ہے کہ ہم نے اس نسل کی پرورش اس نہج پر نہیں کی اور ابھی بھی خواب غفلت میں ہیں۔ ہم ان کو اقبال کے شاہین نہیں بنا سکے۔"البتہ نشہ کی لت میں مبتلا کر کے جہاز کا خطاب ضرور دیا ہے"ہم سب کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے۔

ہماری ٹین ایج نسل میں اخلاقیات، معاملہ فہمی، اختلاف رائے کا احترام، بڑوں کی عزت، چھوٹوں سے معاملات، غلطی پر در گزرکیسے کرنا ہے، اپنی غلطی پر معافی مانگنے میں دیر نہ کرنا، ملکی وقار کو داؤ پر نہیں لگانا، اس ملک کی آزادی کو حقیقی معنوں میں اس کی قدرکرنا جیسے معاملات کی کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ہم سب مل کر اس سوسائٹی کو ایک جنگل کی طرح بنانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں، کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ اگر یہی سلسلہ چلتا رہا تو اس معاشرے میں مزید لاقانونیت ناانصافی بے چینی بڑے گی جو یقینا" ایک بڑے طوفان کا پیش خیمہ بنیں گی۔

چوبیس جنوری کو تعلیم کا عالمی دن منایا گیا۔ کیا ہم نے غور کیا کہ جو تعلیم یا سلیبس ہم بچوں کو پڑھا رہے ہیں وہ عصر حاظر کی ضروریات سے ہم آہنگ ہے؟ جو ٹین ایج نسل کالج یا یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے ان کی ہم تربیت کیسے کر رہے ہیں؟ کیا وہ وہاں آزادی کے ساتھ بلا خوف و خطر اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکتے ہیں؟ بہت افسوس سے کہنا پڑرہا کہ جواب نفی میں ہے۔ بظاہر تو طلبہ کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی ہے پر اس کے پس پردہ جانے انجانے میں سیاسی جماعتوں کےاور مذہبی جماعتوں کی اشیر باد سےکالجوں اور یونیورسٹیز میں ان کے کارندے نام نہاد سٹوڈنٹس کی شکل میں موجود ہیں۔ ان سب کی مین آماجگاہ ہاسٹلز ہیں۔ اساتذہ اپنی عزت سادات کو بچانے کی چکر میں رہتے ہیں۔ پرنسپلز یا چانسلرز صاحبان بھی اپنے اپنے اداروں میں ڈسپلن قائم کرنے میں ناکام ہیں۔ کوئی بھی شریف طالبعلم ان کے گروپ میں شامل ہوئے بغیر اپنی تعلیم کو مکمل نہیں کر سکتا ہے۔

مزید برآں عصبیت پسند گروپ بھی اپنی شناخت برقرار رکھنے میں پیش پیش ہیں۔ وہ بھی جانے انجانے میں کسی نہ کسی قوت کے آلہ کار کا کام سر انجام دے رہیں ہیں۔ یہ تحفہ بھی سابق ڈکٹیٹر مرحوم کے کھاتے میں جاتا ہے۔ جنہوں نے ایسے عناصر کی پشت پناہی کی جو آج ایک مکمل تناور درخت کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ خدارا کوئی ایسا لائحہ عمل بنایا جائے کہ تعلیمی اداروں سےسیاسی جماعتوں کی عمل داری ختم ہو۔

کچھ لوگوں کو میری اس بات سے اختلاف ہو سکتا ہے کہ سیاست کی پنیری ادھر سے ہی تیار ہوتی ہے۔ پر جس طرح کی پنیری ہم تیار کر رہے وہ کسی بھی طرح ہمارے ملک ہماری نوجوان نسل کے لئے زہر قاتل ہے۔ ہم معاشرے کو تقسیم در تقسیم کر رہے ہیں۔ ہم اپنی نسل کو ان روایات سے دور کر رہے جو ہمارے آباؤاجداد کا خاصہ تھیں۔ آئے دن تعلیمی اداروں میں ہنگامے، آئس کا نشہ، گرلز کا منفی سرگرمیوں میں شامل ہونا۔ ایسے واقعات سوشل میڈیاپرنٹ میڈیااورالیکٹرونکس میڈیا میں رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔

اگر گہرائی میں دیکھے تو ہاسٹلز اس کے بیس کیمپ کی نشان دہی کرتے ہیں۔ ہاسٹلز کےنئے رولز متعارف کروائے جائیں۔ ان ہاسٹلز کی سیکیورٹی اور انچارج حاضر سروس فوج کا کوئی اعلی افسر ہونا چاہئے۔ کسی بھی سابق طالب علم کو وہاں رہنے کی ہرگز اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ اخلاقی جرم پر رعایت بلکل نہیں ہونی چاہئے۔ اس کا سیدھا حل تعلیمی سند پر سرخ پنسل کا استعمال بے دریغ کیا جائے۔ سیاسی اور مذہبی جماعت کے قائدین سے بھی دست بدستہ عرض خدارا اپنےذاتی ایجنڈے کی خاطر ملک کی اصل کریم کو خراب نہ کریں۔ اصل میں یہ عمر ہی ایسی ہوتی صیح غلط کا بہت دیر بعد پتہ چلتا تب تک ٹرین چھوٹ چکی ہوتی ہے۔

کسی نے اپنے وقت کے ڈان سے پوچھا کہ آپ کو کسی سے خوف بھی آتا ہے تو اس نے جھٹ سے جواب دیا ہاں ٹین ایج کےلڑکے سے جب اس سے وضاحت کے لئے بولا گیا تو اس نے بتایا کہ اس ایج کا انسان لا ابالی عمر میں ہوتا ہے وہ کچھ بھی کر گزرتاہے کرنے سے پہلے سوچتا نہیں ہے۔ اور یہی حقیقت ہے۔ آپ خود کش حملہ آوروں کی عمر دیکھ لیں زیادہ تعداد ٹین ایج کی ملے گیاس ایج کے لوگوں کی برین واشنگ آسان ہوتی۔ جذباتیت ہارمون کی وجہ سے زیادہ ہوتی۔ ان کو استعمال کرنا آسان ہوتا۔

بطورمعاشرہ ہم سب کو اپنی اس نسل کو تعمیری کام کی طرف راغب کرنا چاہئے ان کی رہنمائی کرنی چاہئے۔ تا کہ وہ ہمارے ملک کےباوقار شہری بن سکیں۔ ہم اپنے ملک اور آنے والی نسل کو ایک اچھا مستقبل دےسکتے ہیں۔ اس میں تعلیمی اداروں اور اساتذہ کوبالخصوص آگے آنا ہو گا۔ اس ملک کی بقا کے لئے اپنی خدمات احسن طریقے سے ادا کرنا ہوں گی۔ اس ٹین ایج نسل کو اس طرحتیار کرنا ہو گا کہ

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

Check Also

Apni Jaron Se Miliye

By Arif Anis Malik