Thursday, 16 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Tasalsul

Tasalsul

تسلسل

کسی بھی کام کی کامیابی کا انحصار تسلسل میں ہے۔ کسی منزل پر پہنچنا ہو کوئی امتحان درپیش ہو زندگی کے اس سفر میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ زندگی ایک جہد مسلسل ہے۔ انسان کوئی کاروبار بھی کرے تو ایک نسل کی قربانی کے بعد ہی اس پھل کا ثمر ملنا شروع ہوتا ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاسی حکومتوں نے عوام کی فلاح کے کئی منصوبے بنائے چندشومئی قسمت پروان چڑھ گئے۔ باقی جونہی حکومت فارغ ہوئی اس کے بنائے گئے منصوبوں پر روک لگا دی جاتی یہ سوچے سمجھے بغیر کہ یہ عوام کے فلاح کے لئے ہیں نہ کہ کسی ایک جماعت کےلئے۔ پی ٹی آئی کی حکومت سے پہلے جتنے بھی منصوبے بنائے گئے وہ ووٹ کے حصول کو مد نظررکھ کر بنائے جاتے رہیں۔

کوئی بھی دوررس فلاحی منصوبہ سازی کی کمی شدت سے محسوس کی گئی۔ جیسا کہ بہت عرصے سے پانی کی کمی کا شور برپا تھا۔ اب جب دریا سوکھ گئے دریاؤں میں سیوریج کا پانی ڈال کے زرعی زمین اور فصلوں کو زہر آلود کر دیا گیا ہے۔ کیا سابقہ حکمرانوں سے یہ سوال نہیں پوچھا جانا چاہئے کہ میٹرو یا اورنج ٹرین ضروری تھی یا ڈیم؟

کیا لاہور اور دوسرے بڑے شہروں کےباسیوں کو صاف پانی کی فراہمی اولین ترجیح ہونی چاہئے تھی یا لیپ ٹاپ کی تقسیم ایسی اسکیمز ان حکومتوں کی ترجیحات کا تعین کرتی ہیں۔ لیڈر اور سیاستدان میں یہی فرق ہوتا۔ لیڈر آنے والی نسل کا سوچتا ہے سیاست دان آنے والے الیکشن سے باہر نہیں نکل پاتا۔

ایوب خاں کے بعد کوئی بڑا ڈیم پاکستان میں نہیں بن پایا۔ پی ٹی آئی حکومت نے مختلف ڈیمز پر کام شروع کیا تو اپوزیشن نے واویلا کیا کہ کوئی ایک اینٹ بھی نہیں لگائی گئی۔ لیکن جونہی حکومت کے سنگھاسن پر بیٹھے تو سیدھے ڈیم پر اور اپنی شوبازی شو کروائی کہ اس منصوبہ کا جلد پایاتکمیل تک پہنچایا جائے۔

شنید یہ ہے کہ صحت کارڈ لنگر خانے (گو کہ ان لنگر خانوں پر راقم کو شروع سے اختلاف رہا ہے ہم عوام کو بھکاری بنا رہے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بھی اسی زمرے میں آتی ہے) ہم عوام کومچھلی نا دیں مچھلی پکڑنا سکھائے یہ وہ کلیہ ہے جس سے چائنہ مستفید ہوا ہے۔

کہنے کا مقصد کہ ہم ہر تین سال کے بعد گھوم پھر کے پنجابی میں کہتے آنے والی تھاں وہی آجاتےہیں۔ ہماری پالیسیوں میں تسلسل کیوں نہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ جو بھی فلاحی منصوبہ ہو اس کی پہلے ہر طرح سے تمام اسٹیک ہولڈر سے منظوری لی جائے پھر چاہے جو بھی حکومت آئے ان منصوبوں کو بیک گئیر نہیں لگنا چاہئے۔

ہمارا ہمسایہ دشمن ملک خارجی اور معاشی اعتبار سے ہم سے آگے کیوں ہیں؟ کیونکہ انہوں نے جو منصوبے بنائے ان میں تسلسل رہا حکومتوں کی تبدیلی سے ان کے بنیادی ایجنڈہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ پوری دنیا ان سے تجارت کی خواہاں ہے۔ جب تجارت ہو توخارجی معاملات بھی خود ہی ہاتھ میں آ جاتے ہیں۔ ہماری حکومت سے کوئی معاہدہ کرنے کو تیارنہیں ہوتا کہ پتہ نہیں اس حکومت کے جانے کے بعد ہمارے ساتھ کیا سلوک ہو گا اس حوالے سے ہماراٹریک ریکارڈ کوئی اتنا حوصلہ افزاء نہیں۔

اگر تو ہم اپنے ملک اور عوام سے مخلص ہیں تو سب سر جوڑ کر بیٹھے کم از کم پچیس سال کے لئےایک روڈ میپ بنا لیا جائے آندھی آئے یا طوفان اس کو بہر صورت پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے ہم تبھی آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ایٹم بم کا حصول اسی تسلسل کی پالیسی سے ہی بار آور ہوا ہے۔

میری موجودہ حکومت سے گزارش ہے کہ سطحی نمودونمائش کے لئے فیصلے نہ کئے جائیں اورذاتی رنجش کی وجہ سے عوام کے فلاحی منصوبوں پر روک نہ لگائی جائے ان منصوبوں پر عوام کے خون پسینے کی کمائی لگی ہے کسی بھی صورت ضائع نہیں کرنی چاہئے۔

آپ مزید نئے منصوبے لانچ کریں تا کہ ملک ترقی کر سکے۔ تسلسل ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ پانی کا ایک قطرہ پتھر پر لگا تارگرتا رہے تو وہ بھی پتھر میں سوراخ کر سکتا ہے۔ ہمیں الیکشن کا نہیں عوام کا سوچنا ہے اور ہمیں ایسے ہی لیڈر کی تلاش ہے۔

Check Also

Teen Shayar Aik Khayal

By Anwar Ahmad