Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Suthra Pakistan

Suthra Pakistan

ستھرا پاکستان

صفائی کس کو نہیں پسند؟ انفرادی طور پر بھی اورفطری طور پر بھی ہر کوئی چاہتا کہ وہ صاف ستھرا اور دوسروں سے نمایاں نظرآئے۔ کچھ لوگ بہت زیادہ صفائی کو اہمیت دیتے، بار بار ہاتھ دھوتے، پھر بھی شک میں مبتلا رہتے کہ شاید ابھی بھی صفائی نا مکمل ہے۔ نفسیات دان اس کو نفسیاتی بیماری سے تعبیر کرتے۔ قطع نظر اس کے ایک بات ہے کہ جدھر صفائی اُدھر خدائی بڑوں نےبھی یہی بات بتلائی ہے۔ ہمارا مذہب دین اسلام بھی صفائی کی اہمیت پر بہت زور دیتا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارا آدھا ایمان صفائی میں پنہاں ہے۔ روحانیت والے لوگ ظاہری صفائی کی بجائے باطنی صفائی پر زور دیتے ہیں۔ ہماری نظر میں ظاہری یا باطنی دونوں کی صفائی ہونی چاہئے۔

اگر صرف ظاہری صفائی کی بات کریں، تو ہم خود کو کام والی جگہ یا اپنے گھر کو تو صاف ستھرا رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ انفرادی سطح پر تو ہر کوئی اپنے تئیں اس کا پورا خیال رکھتا ہے۔ لیکن اگریونہی ہم اجتماعی صفائی کی طرف دھیان دیں تو شرم ساری سی محسوس ہوتی ہے۔ سڑکوں پر دیواروں پر فٹ پاتھ پر پان کے پیک اپنے نقش و نگاری کے ساتھ جا بجا نظر آتے ہیں۔ یہی نہیں ہم اپنے گھروں، دکانوں کی صفائی کے بعد کچرا کو سمیٹ کر کوڑا دان میں رکھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے، بلکہ دوسرے گھر یادوسرےدکان دار کے دروازے کی طرف کر دیتے ہیں، یا عین بیچ سڑک کنارے کر کے ہم سمجھتے کہ ہم نے صفائی کر لی ہے۔

اب کوڑا جانے یا وہ جس کے دروازے کی طرف اس کو کیا گیا ہوتا۔ یا پھر ہماری کوشش ہوتی کہ سیوریج کی نالی میں اس کو پھینک دیاجائے۔ مطلب ہم اپنی ناک سے آگے نہیں سوچتے۔ ہم اپنا الو سیدھا کرنے کا سوچتے ہیں ریاست کو کیسے صاف ستھرا رکھنا ہےبھاڑ میں جائے ہماری بلا سے۔ جب تک بحثیت قوم ہم میں یہ اجتماعی سوچ بیدار نہیں ہو گی۔ ہم با شعور قوم نہیں بن سکتے۔ مجھے اچھی طرح یادہے پرائمری اسکول میں صبح سب سے پہلے صفائی کروائی جاتی تھی۔ جہاں کلاس نے بیٹھنا ہوتا تھا۔ پھر اس گراؤنڈکی جہاں کھیل وغیرہ ہوتے تھے۔

صفائی کے لئے ایک درخت ہوتا تھا، جو اب صفائی کی طرح وہ بھی ناپید ہو چکا ہے۔ اس کی ٹہنیوں کو توڑ کر جھاڑو کا کام لیا جاتا تھا۔ امیر غریب سب بچے ایک ساتھ اس صفائی مہم کا حصہ بنتے تھے۔ کبھی کسی کی انا آڑےنہیں آتی تھی۔ حکومت کے اسکولز میں شاید ابھی بھی ایسا ہوتا ہو پر پرائیویٹ سیکٹر میں تو بچوں سے صفائی کروانا گناہ کبیرہ سمجھاجاتا اوپر سے والدین کا دباؤ بھی ہوتا ہےکہ ہمارا بچہ صفائی کیوں کرے۔ حالانکہ یہ بچے کی تربیت کا لازمی جزو ہونا چاہئے۔ اچھی قومیں اپنے بچوں کی تربیت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتی ہے۔ کیونکہ یہی کل کو قوم کی قسمت بدلنے میں انہی کا ہاتھ ہو گا۔

آج قوم میں اجتماعیت نہیں تو اس کی بڑی وجہ ہم اپنے پودے کو ریاست کے لئے تیار نہیں کر رہے۔ دین کے بنیادی فلسفے سے دور کر رہے۔ ہمارے آباؤ اجداد بر صغیر کی پیداوار برہمن اور شودر کی سوچ سے ہم نہیں نکل پائے۔ اس کی مثال آپ 25 دسمبر کو دیکھ لیں ایک مخصوص کمیونٹی کو اس دن چھٹی ہوتی اور پورا پاکستان کوڑادان نظر آتا ہے۔ ہم صفائی کے لئے صرف اسی کمیونٹی کو ہی ذمہ دارکیوں سمجھتے۔ اور صرف اسی کمیونٹی کے ہی لوگ کیوں اس میں بھرتی کئے جاتے؟ کیا بحیثیت مسلمان بحیثیت ایک شہری کےہماری کوئی ذمہ داری نہیں بنتی؟ کہ ہم اپنے ارد گرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھیں۔

ہمارے استاد اکثر جب ناقص صفائی دیکھتے، توکہتے تھے کہ تم سے تو کتا اچھا جو اپنی جگہ پر بیٹھنے سے پہلے اپنی دُم سے جگہ کو صاف کر لیتا ہے۔ مطلب صفائی کی اہمیت کو اُجاگرکرنا مقصود ہوتا۔ اغیار نے صفائی میں خدائی کو پا لیا ہے۔ ابھی حال ہی میں بتایا گیا کہ جاپان میں ہر سال کے آخری دن سب اپنی اپنی جگہ کی صفائی کرتے تا کہ نئے سال کو اچھے انداز سے منایا جا سکے۔ سوال یہ کہ ہم سب یہ کیوں نہیں کر سکتے یقینا" کر سکتے ہیں؟ اگر میڈ یا اس کو اون کر لے۔ ہر اداراہ اس کو قبول کر لے۔ میری نظرمیں حکومتی سطح پر 25 دسمبر کو پاکستان میں صفائی ڈے منایا جائے، چھٹی تو ویسے بھی ہوتی ہے۔

سب قوم مل کر اپنی اپنی جگہ کی صفائی کریں اور قائد اعظم ڈے کے موقع پر ان کے فرمان کو پورا کیا جائے کہ کام، کام اور بس، کام۔ ایک صاف ستھرا ہر ابھرا پاکستان دیکھنے کا خواب ہر شہری دیکھتا ہے، اس کی تعبیر تبھی مل سکتی جب ہم سب اس کی ذمہ داریاپنے کندھوں پر لیں گے۔ اس میں سول سروس کو، پرائیویٹ سیکٹر کو، این جی اوز کو، سٹوڈنٹس کو ہر اس بندے کو جدھر وہ کام کرتاہے، ایک دن کے لئے اپنے آپ کو وقف کرے۔ راستے سے ایک کانٹے یا پتھر کو راستے سے ہٹا دینا بھی صدقہ جاری بن جاتا ہےتوکیوں ہم اس نیکی کو پانے کی کوشش نہیں کرتے، کیوں صرف ایک کیمونٹی کے محتاج بن کر رہ گئے ہیں۔ زرا سوچئے؟

Check Also

Solar Energy Se Bijli Hasil Karne Walon Ki Hosla Shikni

By Nusrat Javed