1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Siri Paye

Siri Paye

سری پائے

کھانے کے شوقین حضرات کے لئے یہ نام پڑھتے ہی منہ میں پانی آ گیا ہوگا۔ پر جس سری، پائے کی میں بات کرنے جا رہا ہوں وہ کھانے والی چیز نہیں بس دیکھنے اور نظارہ کرنے والی چیز ہے۔ اگرجنت نظیر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

الحمداللہ پاکستان میں ایسی بہت سی جگہیں ہیں جہاں پر خدا کی قدرت اور اس کے کینوس پربکھرے ہوئے رنگ نمایاں ہیں۔ دیکھ کر بے ساختہ منہ سے سبحان اللہ کا ورد جاری ہو جاتا ہے اور اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ میری زمیں پر چلو پھرو اور قدرت کی نشانیوں پر غوروفکر کرو۔

موجودہ ماحول جس میں مایوسی فرسٹریشن ڈیپریشن نمایاں ہے۔ سیاحت ایک بہت ہی اچھی تھیراپی ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ لوگوں نے اس کی اہمیت کو جان لیا ہے۔ جس وجہ سے مقامی سیاحت کو فروغ ملا ہے۔ خاص کر ہمارے پہاڑی مقامات سیاحت کے لئے بہت موزوں ہیں۔

مجھے بھی بالا کوٹ سے آگے شوگران اور اس سے آگے مزید جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں کے مشہور پوائنٹ سری، پائے کا نظارہ کرنے کا موقع ملا۔ عام فہم انسان اس کو کھانے والی ڈش سے اس کوموسوم کرتے ہیں۔ لیکن جیپ ڈرائیور کے بقول سری ان کی مقامی زبان کے مطابق سخت مشکل جگہ کو کہتے ہیں جہاں پر پانی کا حصول قدرے مشکل ہے اس لئے اس کو سری بولا جاتا ہے۔

اور جب پائے کے بابت پوچھا گیا تو بتایا گیا کہ یہ کیونکہ ملکہ پربت پہاڑ جہاں سے شروع ہوتا ہے تواس نسبت سے اس کو پائے بولا جاتا ہے۔

تین دن کی سیاحت سے کافی کچھ دیکھنے سمجھنے کا موقع ملا وہاں کافی تکلیفات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

کہتے کچھ حاصل کرنے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان تمام تکالیف کو خاطر میں نہیں لائے۔ پر یہ ضرور ٹھان لی کہ اس موضوع پر لکھنا چاہئے اپنی طرف سے تجاویزدینی چاہئے کہ شاید کسی کے کان پر جوں رینگ جائے۔

ٹریفک کے مسائل: بیشک بڑی سڑکیں اچھی معیاری ہیں لیکن ذیلی سڑکوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ یہ جو جیپ سروس لوگ ہیں یہ سب سے بڑی رکاوٹ ہیں کیونکہ ان کو ڈر ہے کہ اگر یہ سڑکیں پایہ تکمیل تک پہنچ گئیں تو ان کا روز گار چھن جائے گا۔ پر وہ یہ نہیں سوچتے کہ اتنی پر خطر راستے پر آئے دن جو جانی نقصان ہوتے ہیں کیا وہ آپ کے روزگار سے کماہمیت کے حامل ہیں۔

اگر ان کا یہ مطالبہ جائز بھی ہے تو ان کو اعتماد میں لیکر ان کو قانونی تحفظ دیا جا سکتا ہے کہ شوگران سے آگے سڑکیں بننے کے بعد عام گاڑی کا داخلہ ممنوع قرار دے دیاجائے صرف وہی مقامی لوگ اپنی جیپ سروس کو جاری رکھے پر سیاحوں کی جیبیں خالی کرنے کی بجائے ایک مناسب کرایہ نامہ طے کیا جائے تا کہ آئے روز جھگڑوں اور غنڈہ گردی سے نجات ملے۔

اس کے بعد دوسرا بڑا ایشو رہائش کا حصول ہے۔ اس میں سیاحوں کو اپنے کیمپنگ کی اجازت ہونی چاہئے۔ تا کہ ہوٹلوں کے ہوشربا اخراجات سے نجات ملے۔

تیسرا مسئلہ کھانے پینے کا ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ وہاں تک کیرج ایک مشکل کام ہے پر اتنا بھی نہیں کہ سیاحوں کے کپڑے اتار لئے جائیں۔ ناشتے میں انڈہ پراٹھا چائے اور ایک لاہوری چین کی کڑاہی بس یہ ادھر مینیو ہے لیکن کھانے کا بل ایک جرمانے کی صورت میں ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس کاحل یہ کہ مقامی لوگوں کو پولٹری فارم یا گھروں کی حد تک مرغبانی کرنے کی ترغیب دی جائے تا کہ انڈہ مقامی ضروریات کے مطابق وافر مقدار میں موجود ہو۔

ایک بات حیران کن کی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے کیسے اپنا جال بچھایا ہے کہ ہر جگہ منرل واٹر کی بوتلیں آلو کے چپس اور سوفٹ ڈرنکس کی بھرمار کر رکھی ہے۔ حالانکہ وہاں آلو اعلی1 کوالٹی کا ہوتا ہے۔ چشموں کا پانی صاف شفاف منرل سے بھرپور ہوتا ہے وہاں کی انتظامیہ کیوں وہ چشموں کا پانی کمرشل لیول پر تیار نہیں کرنےدیتی۔ کیوں وہ مقامی آلو کو چپس میں تیار کرکے فروخت کرنے کی ترغیب نہیں دیتی ہے؟

مکئی کی پیداوار بہت زیادہ اور اعلی ذائقہ کی ہوتی ہے کیوں وہ اس طرز پر تیار نہیں کروائی جاتی جیسے باہر کے پیکٹ میں موجود مکئی کے دانے پوپ کارن بن جاتے ہیں اور لوگ خاص کر خواتین اور بچے بھر پور لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اور اگر ہم چاہیں تو اس طرز کی مکئی پیدا کرکے باہر کے ملک بھیج کر معقول زرمبادلہ کما سکتے ہیں۔

ایک جگہ اور جانے کا اتفاق ہوا جسے پارس کے جنگل سے موسوم کیا جاتا ہے فیمیلز کے لئے پرسکون جگہ ہے پر دو گھنٹے کا سفر انتہائی پر خطر اپنی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ ادھر محسوس ایسا ہوا کہ ہم کسی پیالہ نما جگہ موجود ہیں۔ ایک صاف شفاف چشمہ بھی جاری تھا۔ خیال آیا کہ قدرتی ڈیم موجود ہے اگر کوئی متعلقہ کام کا ماہر اس کا وزٹ کرے تو وہی بات کوئی حتمی کر سکتاہے۔ پر اگر کسی طرح وہ ڈیم بن جائے تو مقامی آبادی کو پن بجلی کی ترسیل اور زراعت کے لئےپانی کو کافی حد تک جمع کیا جا سکتا ہے۔

ہر جگہ ایک بات شدت سے محسوس ہوئی کہ ہمارے پاس قدرت کے نظارے جابجا بکھرے ہوئے ہیں پرہم دنیا کو دیکھانے سے قاصر ہیں۔ موجودہ زمانہ مارکیٹنگ کا ہے۔ ہم اپنے سیاحتی مقامات کی صحیح سے مارکیٹنگ نہیں کر پا رہے ہیں۔ اور نہ ہی ہمارا اس میں کوئی واجدان نظر آتا ہے۔ بلاشبہ یہ یورپ کے کسی بھی پکنک پوائنٹ سے کم نہیں ہیں۔ پر سیاحت شاید ہماری ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔

اسی لئے ہم اس پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کرتے۔ فلم، ٹی وی، کے سین کے لئے اتنے اچھے پوائنٹہیں ان لوگوں کو راغب کیا جا سکتا ہے۔

واپسی پر پیاز کی وافر مقدار دیکھی جو سیل نہ ہونے کی وجہ سے گلی سڑی پڑی تھی۔

اسی طرح اتنی ہریالی دیکھنے کے باوجود پھلوں کے درخت نا پید تھے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ مقامی لوگوں خاص کر نوجوانوں کو پھلوں کے درخت لگانے ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سونپی جائے۔ جامن کے درخت اگر لگائیں جائیں تو بہت اچھی پیداوار مل سکتی ہے۔ جڑی بوٹیاں جو کہ خود روتھیں ان پر تحقیق کرکے ادویات کے لئے خام مال اکٹھا کیا جا سکتا ہے اور ان کو دوسرے ممالک میں بیچ کے ملک کی اکانومی کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔

اگر حکومت سنجیدہ ہو تو وہاں کی انتظامیہ میں ایسے لوگ لائیں جائیں جو زرخیز دماغ کے مالک ہوں۔ کیونکہ وہاں کی زمین بہت زرخیز ہے۔ جو جنون رکھتے ہوں کچھ کر گزرنے کی صلاحیت سے مالامال ہوں۔ روایتی بابوؤں کی وہاں کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام آباد اور فیصل آباد کو چار چاند لگانےوالے بابوؤں کی ضرورت ہے جو سیاحت کی موجودہ ضروریات سے کماحقہ ہو آگاہ ہوں اور اپنےوجدان کو بروئے کار لاتے ہوئے انقلابی تبدیلیاں لائیں اور ہمیشہ کے لئے ایک اچھے یادگار پکنک پوائنٹ بنائیں تا کہ باہر سے بھی لوگ ان جگہوں پر آئیں، جہاں ہمارے ہاں پہلے ہی بہت کم ایکسپورٹ کےمواقع ہیں ہم ٹورازم جو کہ ایک بہت ہی منافع بخش انڈسٹری کی شکل دھار چکی ہےبہت سے ممالک صرف سیاحت کی مد سے خود کفیل ہو چکے ہیں۔ ہمیں بھی سنجیدگی سے اسانڈسٹری پر غوروفکر کرنی چاہئے۔ تب ہی سری، پائے کھانے اور سری، پائے دیکھنے سے لطف اندوزہو پائیں گے۔

Check Also

Kya Hum Mafi Nahi Mang Sakte?

By Mohsin Khalid Mohsin