1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Sadarti Nizam Naguzeer

Sadarti Nizam Naguzeer

صدارتی نظام ناگزیر

ملکی سیاسی بساط پر سموگ کی طرح چھائی ہوئی دھند اس بات کی غمازی کر رہی ہے کہ دور دور تک اس دھند کے چھٹنے کے آثار نظرنہیں آرہے۔ سوائے افراتفری کے۔ بے ہنگم بے معنی بے سود ٹامک ٹوئیاں مارنے کے ملک میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کےقائدین کے پاس کوئی جامع حقیقی روڈ میپ یا پلان نہیں ہے جو کہ وہ عوام کے سامنے رکھ سکیں۔ ان کی سیاست اپنے ذاتی مقدمات سے جان چھڑانے سے لیکر اپنی خاندانی سیاست کو بچانے تک پوری عوام کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔

موجودہ سیاسی منظر نامے میں نوجوان نسل کے لئے کوئی حقیقی رول ماڈل نہیں ہے۔ یہ وہ خلاء ہے جو ان موروثی سیاست دانوں نے عطا کیاہے۔ یہ موجودہ پارلیمانی نظام پر عدم اعتماد کا مظہر ہے۔ اگر سابقہ تین سال کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو اپوزیشن نے عوام کےلئے کوئی متاثر کن نعرہ نہیں دیا ہے۔ لوگ بھی ان کو بہت بار بھگت چکے ہیں۔ موجودہ حکومت کی ناقص کارکردگی اور ان سےمنسوب امیدیں اب دم توڑ رہی ہیں۔ عوام اب بیچ منجدھار کھڑے کسی مسیحا کے انتظار میں ہیں۔

اگر ہم اپنی پارلیمانی سیاست کاتجزیہ کریں تو اس نظام سے چند خاندان ہی مستفید ہوئے ہیں۔ اور انہی میں سے مافیاز نے جنم لیا ہے۔ اور اس پورے نظام کویرغمال بنا لیا ہے۔ آکاس بیل کی طرح۔ الیکشن کو اتنا مہنگا بنا دیا گیا ہے کہ جو اصل عوام ہے اس کا نمائندہ الیکشن میں کھڑاہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہی بد قسمتی ہے کہ عوام کی اصل نمائندگی حکومت کے ایوانوں تک نہیں ہو پاتی۔ یہ جو چند نام نہاددانشور پارلیمانی جمہوریت اور ووٹ کو عزت دو کی بات کرتے انہوں نے ہی ووٹر کو عزت اور شعور نہیں دینے دیا۔

آج بھی دیہات میں پٹواری پولیس اور برادری ازم کی تگڑی اپنا رنگ جماتی ہے۔ ان کو شعور ہی نہیں ہے کہ ووٹ کی اصل طاقت کیا ہے۔ آج بھیجاگیر داری نظام اپنے جوبن پر ہے۔ یہ سب پارلیمانی نظام کے تحفے ہیں دوسرے ممالک کے لئے یقینا یہ نظام قابل عمل ہو گا۔ پرہمارے ملک اور لوگوں کی سوچ علاقے کی تقسیم مذہبی شدت پسندی صوبائیت برادری ازم جاگیر دارانہ نظام کے ہوتے ہوئے یہ کسی بھی طرح فٹ نہیں بیٹھتا۔ اس ملک کو صدارتی نظام کی ضرورت ہے۔ جو لوگ صدارتی نظام میں کیڑے نکالتے وہی لوگ اصل میں پارلیمانی نظام کے فوائد سمیٹنے والوں میں سے ہیں۔

وہ جو صدارتی نظام کے خلاف حوالہ دیتے وہ بھول جاتے کہ جو لوگ بھی صدارت تک پہنچے وہ عوام کے ووٹ سے منتخب شدہ نہیں تھے۔ جس صدارتی نظام کی ہم بات کر رہے وہ براہ راست عوام کے ووٹوں سے صدر کا انتخاب ہے۔ اور یہ چار سال کے لئے ہونا چاہئے۔ وہ مکمل با اختیار ہو گا عوام کو جواب دہ ہو گا۔ ہمارےملک کے پارلیمانی نظام کی خامی کہ کوئی بھی اکثریت حاصل نہیں کر پاتا اور ہمیشہ یرغمالی کیفیت میں رہتا۔ اور کوئی بھی عوامی مفادمیں فیصلہ نہیں لے پاتا۔ اس کی حالت اس بچے کی طرح کر دی جاتی جس کی منہ میں انگوٹھا لینے کی عادت چھڑوانے کے لئے اسکی نیکر کا الاسٹک ڈھیلا کر دیا جاتا وہ بے چارہ سارا دن اپنی نیکر کو بچانے کی فکر میں لگا رہتا ہے۔

پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم کےساتھ بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ نہیں یقین تو موجودہ حکومت کی کارکردگی کو دیکھ لیں وقت آنے پر کیسے ان کے اتحادی اپنے دانت تیز کرلیتے اور حکومت کو نا چاہتے ہوئے بھی ان کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑتے۔ اور دوسری سب سے بڑی خرابی یہ لوگ سیاست میں آ کرپیسہ بناتے اور پھر اسی پیسے سے سیا ست کرتے۔ ذرا غور کریں جتنے ممبران قومی یا صوبائی اسمبلی ہیں ان کے اخراجات ملک کی کمزور اکانومی پر بہت بڑا بوجھ ہیں۔ اور زیادہ دکھ اس بات کا کہ جب ان کے اپنے مفاد کی بات ہوتی سب یک زبان ہو جاتے مثلااپنے الاؤنسز بڑھانے کا بل ہو تو وہ متفقہ طور پر منظور ہو جاتا۔

عوام کا نام یہ ضرور لیتے لیکن یہ ایک طرح سے عوام کا استحصال کرتے۔ سو بہت ضروری کہ جلد از جلد اس نظام سے چھٹکارہ پانے کے لئے ایک عوامی ریفرنڈم کروایا جائے اس کی روشنی میں صدارتی نظام کو نافذ کیا جائے۔ نظام کوئی برا نہیں ہوتا لیکن دیکھنا یہ چاہئے کہ ہمارے لئے بہتر کیا ہے۔ جلد یا بدیر اس ملک میں صدارتی نظام ہی لاگو کرنا پڑے گا۔ اس کے بغیر اس ملک کی قسمت نہیں سنورنے والی۔

Check Also

Heera Mandi

By Sanober Nazir