Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Saal e Nao

Saal e Nao

سال نو

دو ہزار اکیس اپنے اختتام کو پہنچا۔ نیا سال نئی امنگوں، چاہتوں، امیدوں کی کرنوں کے ساتھ اپنی آمد کا اعلان کر چکا۔ کہتےہیں، انسان کی زندگی میں امید ہی انسان کو زندہ رکھتی ہے۔ اسی لئے مایوسی کو کفر کا درجہ دیا گیا ہے۔ ہم سب کو اپنے گزرے سال پر غوروفکرکرنے کی ضرورت ہے، کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں، کون سے کام جو ادھورے رہ گئے؟ جو وقت گزر جاتا، یقیناََ وہ لوٹ کےنہیں آتا۔ لیکن آنے والا وقت ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے، کہ ہم اس کو کیسے استعمال میں لاتے ہیں۔ بچپن سے لیکر اب تک، ہر حکمران نے عوام کو یہی چورن بیچا ہے، کہ ملک نازک حالات سے گزر رہا ہے۔

بس کچھ عرصہ صبر سے گزار لیں، عوام یہی لولی پاپ لیکرگزارا کرتی آئی ہے۔ ہم بھی اسی امید کی کرن کے پیچھے ہیں، کہ کبھی تو صبح ہو گی۔ ہمیشہ اندھیرا تو ہمارا مقدر نہیں ہو سکتا۔ علامہ اقبال ؒ نے بھی ہمیں امید کا دامن نہ چھوڑنے کی تلقین کی ہے۔ کہ "پیوستہ رہ شجر سے، اُمیدِ بہار رکھ"۔ ہمارا معاشرہ تضادات سے بھر پور ہے۔ کچھ لوگ گلاس کو آدھا خالی بولتے، کچھ کہتے آدھا بھرا ہوا ہے۔ ہمیں ان لوگوں کی صف میں شامل ہونا ہے، جو گلاس کو آدھا بھرا ہوا بولتےہیں۔ کہ اس میں کچھ امید باندھتی ہے۔ خالی گلاس سے نا امیدی جھلکتی ہے۔

اسی طرح عیسوی کیلنڈر کے خلاف بھی آپ کو ایک طبقہ ملے گا۔ اس کے خلاف ان کے پاس بھی مدلل دلائل ہیں۔ ہم لوگ نہ اچھا احتجاج کر سکتے ہیں اور نہ مجموعی طور پر خوشی کا اظہار کر سکتے ہیں۔ ویسے تو ہم سب عیسوی سال کے مطابق سارا سال چلتےہیں، جونہی کیلنڈر تبدیل ہونے کے قریب ہوتاہے، ہم اس عیسوی سال سے اپنے آپ کو دور کر لیتےہیں۔ ایسا تضاد کیوں ہے؟ عام بندہ پریشان ہو جاتا، کہ وہ کس کی بات مانے۔ اس ملک میں جہاں پہلے ہی خوشیوں کے مواقع کم سے کم ہوتے جا رہےہیں، یہ نئے سال کو منانےوالی خوشی بھی ماند پڑھتی جا رہی ہے۔

اسلام ہمیں اجتہاد کی تلقین کرتا ہے۔ تو کئی ایسے مسائل، جن پر اجتہاد کی فی زمانہ اشد ضرورت ہے۔ تا کہ عام انسان کو گو مگو کی کیفیت سے نکالا جا سکے۔ اوپر سے مستزاد یہ، کہ انتظامیہ اپنا پلہ چھڑانے کے چکروں میں، ایسے مواقع پر ایسے نوٹیفیکشن جاری کرواتی، جس سے یا تو جیب آسانی سی گرم ہو سکے، یا اوپر کے دباؤ سے بچا جا سکے، تا کہ نوکری بچی رہی۔ بھلا ہو عدلیہ کا جنہوں نے بجا فرما یا، کہ پوری دنیا نیا سال اپنے اپنے انداز سے مناتی ہے۔ ہمیں بھی اپنی قوم کو خوشی منانے دی جائے۔

حکمرانوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ عوام جو پہلے ہی بہت زیادہ سٹریس میں جا چکی ہے۔ ان کو آزادی سے جینے کا حق دیاجائے۔ ہاں یہ آزادی، شتر بے مہار بالکل بھی نہیں ہونی چاہئے۔ ہمارے ملک میں ایک طبقہ ایسا بھی موجودہے، جو اپنے آپ کو ملکی قوانین سے اولیٰ سمجھتا ہے، اور حقیقت بھی یہی ہے۔ وہ اپنے اندازسے ہر ایونٹ کو مناتا ہے۔ جب چاہے دوسرے ملک کا رخ بھی کر جاتا ہے۔ سوچنے والی بات ہے، سب قوانین کا اطلاق بس عام اورغریب طبقے پر لاگو ہونا ہوتاہے۔ جب کےایلیٹ کلاس اس سے مبرا ہے۔ یہ طبقاتی نا ہمواری بھی ملک کے لئے دیمک کا کام کر رہی ہے۔

دعا ہے کہ یہ نیا سال ہم سب کےلئے خوشیوں کا پیغام لائے، امن ہو، ملک ترقی کرے، اورد نیا میں باوقار مقام پر کھڑا ہو۔ آپس میں ہم آہنگی ہو۔ ہجوم نہیں، ایک قوم بن کراپنے ملک کی بہتری کے لئے کام کریں، آمین۔

Check Also

Safar Sarab

By Rehmat Aziz Khan