Thursday, 16 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Rawaiya

Rawaiya

رویہ

ہمارے مذہب اسلام کا یہ ایک طرہ امتیاز ہے کہ اخلاق کو ایک مرکزی حیثیت دی گئی ہے۔ اور فرمایا گیا ہے کہ تم میں سے سب سےاچھا وہ ہے جس کا اخلاق اچھا ہے۔ اگر ہم اپنے موجودہ معاشرہ میں نظر دوڑائیں تو تقریبا" ہر بندہ سٹریس یا تناؤ میں نظر آتا ہے۔ ہرکوئی کسی نہ کسی غلطان میں نظر آتا ہے۔ جس وجہ سے ہمارے روئیے تبدیل ہو رہے ہیں۔ سٹریس لیول اوپر جا رہا ہے۔ اس بات کی تصدیق کرنی ہو تو ٹریفک کے بہاؤ میں کھڑے ہو کر دیکھے۔

ہر بندہ دوسرے کو مورد الزام ٹھرا رہا ہو گا۔ حالا نکہ مخالف سمت سےآنے والا جو کہ سرا سر ون وے کی خلاف ورزی کر رہا ہوتا ہے وہ بھی اپنا حق جتا رہا ہوتا ہے۔ اور ہر کسی کو کبھی نہ کبھی ایسےکسی کردار سے واسطہ ضرور پڑا ہو گا۔ اور انسان اپنی عزت سادات بچانے میں ہی عافیت محسوس کرتا ہے۔ پر سوچنے والی بات کہ ہم اپنے معاشرے میں اخلاق کو کیوں پروان نہیں چڑھا رہے۔ آنے والی نسل ویڈیوز گیمز کے توسط سے مزید جارحانہ ہو گئی ہے۔ ایسی ایسی گیم ویڈیوز آن لائن موجود ہیں۔ جو ماہر نفسیات کہتے کہ بچے میں بہت سی نفسیاتی تبدیلیوں کا باعث بن رہی ہیں اور ہم خود بچوں کو اس تندور میں جھونک رہے ہیں۔ جس سے برداشت میں کمی ہو رہی ہے۔

حقوق ا لعباد میں ہم اخلاق، اخلاص، رواداری، بھائی چارہ جیسی روایات سے دور ہو رہے ہیں۔ جو کہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ انسان اگر کسی سے متاثرہوتا ہے تو وہ اس کا اخلاقی رویہ ہوتا ہے۔ اسلام اکیلا جہاد سے ہی نہیں پھیلا۔ حسن اخلاق کا بھی اس میں بہت بڑا کردار رہا ہے۔ ہمارے نبی ﷺ کی سیرت حسن اخلاق کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ہمارے اس خطے میں صوفیاء اکرام اولیاء اللہ نے اسلام کی شمع اپنے اچھے اخلاق سے روشن کی جس سے کفر کا اندھیرا دور ہوا اور لوگ بہت تعداد میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ ہمیں بھی اپنے رویہ تبدیل کرنے چاہئے۔ اسلام کے دو ایسے جملے اگر ہم اپنی زندگی میں شامل کر لیں تو یقین مانئیے کہ مثالی معاشرہ بن جائے۔

پہلا السلام علیکم کہنا جیسے ہمیں بتایا گیا ہے۔ اور دوسرا شکریہ ادا کرنا۔ کہتے کہ جو کسی انسان کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا وہ اپنے رب کی نعمتوں کا شکر بھی ادا نہیں کرسکتا۔ ویسے بھی ارشاد باری تعالی ہے کہ جو لوگ میری نعمتوں پر شکر ادا کرتے ہیں میں ان کو اورنوازتا ہوں۔ ہم لوگ زیادہ سٹریس معاشی پریشانی کا لیتے ہیں۔ تو اس کا آسان حل یہی کہ ہر وقت شکر کے کلمات اپنی زبان پررکھے۔ صلہ رحمی کرے غلطیوں پر در گزر کرنا سیکھے۔

کہتے ہیں کہ مسکراہٹ بھی ایک وائرل کیفیت ہے۔ اگر ایک بستی میں کوئی مسکراہٹ سے داخل ہوتا ہے تو دیکھتے دیکھتے اس کا اثردوسروں کے چہروں پر بھی آتا ہے۔ سو ہمیں اس پریکٹس کو بھی اپنے چہروں سے عیاں کرنی چاہئے۔ لیکن مسکراہٹ اور ہنسی کے فرق کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے۔ کیونکہ کئی مواقع پر اس کے برعکس صورتحال کا سامنا بھی ہو سکتاہے۔

حالیہ ایک سروے کے مطابق پاکستان کا خوش ترین ممالک میں ایک سو تین نمبر پر ہے۔ ہم صبر اور شکر کو اپنا اوڑنا بچھونا بنا لیں توبہت جلد ہم ان اقوام کی صف میں شامل ہو سکتے جو ٹاپ پر ہیں۔

بس اس کے لئے ہر بندے کو انفرادی سطح پر اپنے اندر تبدیلی لانی ہو گی اپنے روئیے کو بدلنا ہو گا۔ اسلام اور بزرگوں کی تعلیمات پرعمل کرنا ہو گا۔ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کو بھی اپنی زندگی کا نصب العین بنانا ہو گا۔ اور خود کو اس شعر کے مطابقڈھالنا ہو گا کہ

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

Check Also

Zarkhez Zameen Ke Zarkhez Log

By Muhammad Saqib