Thursday, 16 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Raqeeb

Raqeeb

رقیب

رقیب عربی زبان کا لفظ ہے۔ اور وسیع معنی رکھتا ہے۔ زندگی میں کسی نہ کسی موڑ پر انسان کا اس لفظ کے کرداروں سے سامنا ہواہو گا۔ زیادہ نمایاں اس کو شعراء اکرام نے اپنی شاعری میں استعمال کر کے کیا ہے۔ جونہی یہ لفظ ذہن میں آتا ہے تو فورا" ایک ایسےمنفی کردار کی تصویر اُبھر کر سامنے آجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے دل سے ایک ہوک سی اُٹھتی ہے۔ جس کی وجہ سے ہزاروں خواہشیں ایسی کہ رقیب یا رقابت کی وجہ سے پوری نہ ہو سکیں۔اب دل اور دماغ کے رشتے کو ہی لے لیں آج تک فیصلہ نہیں کر پائے کہ ان میں سے رقیب کون؟رقیب کو ایک ہی زاویہ سے دیکھنا یقیناً انصاف نہیں۔

مانا کہ زیادہ بدنامی اس کو اسی سے ملی جس کام کے کرنےسےبدنامی ہونے کاڈر ہوتا۔سنا ہے کہ رقابت کی بیماری ہمارے خطے میں زیادہ پائی جاتی ہے۔یورپین ممالک میں کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ کسی کی زندگی کو اجیرن بنانے کے لئے رقابت جیسی بھاری ذمہ داری اُٹھاتا پھرے۔سوچنے کی بات کہ ہم میں یہ بیماری اتنی کیوں ہے۔ ہمیں قدم قدم پر حتٰی کہ ایک گھر میں موجود بہن بھائی بھی رقابت کامظاہرہ کرتے ہیں۔کاروبار کی جگہ پر آپ کو رقابت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جدہر آپ ملازمت کر رہے ہوتےہیں ،وہاں آپ کو ایک سے زیاد ہ ہررقیبوں سے واسطہ پڑے گا۔

رقابت اگر مثبت سوچ کے ساتھ کی جا رہی ہے تو اتنی نقصان دہ نہیں۔ اگر ایسا نہیں تو وہ رقابت حسد میں تبدیل ہوتے چندا ٹائم نہیں لے گی۔عمومی طور پر دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ رقیب ہو یا کسی سے رقابت اس کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ وقتی اگر کوئی کامیابی ملتی بھی ہے تو وہ دیرپا نہیں ہوتی۔سو ہمیں چاہئے کہ اپنی قوت کو مثبت سر گرمیوں میں لگائیں۔ بلاوجہ کسی کے کام میں ٹانگ مت اڑائیں کسی کی کا میابی سے حسد نہیں کریں۔حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے۔ہماری صحافتی برادری کے سنئیر ارکان کو بھی چاہئے کہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں۔

ان کو اپنا رقیب مت سمجھیں۔ اگرکوئی آپ سے رابطہ کرتا ہے تو براہ مہربانی ان کو رپلائی اور رہنمائی ضرور کیا کرے۔ اکثر کا لم نگار کی ای میل آئی ڈی دی ہوتی ہے۔ ان کو اگر ای میل کی جائے تو وہ رپلائی دینے میں کنجوسی سے کام لیتے شاید وہ اس کو شاید وہ اپنی شان کے خلاف سمجھتے۔جو پڑھا لکھا طبقہ ہے جب تک وہ ہمارے معاشرے کی بہتری کے لئے کام نہیں کرے گا۔ رقابت، حسد، جھوٹ منافقت، اوران جیسی ملتی جلتی قباحتوں کی بیخ کنی نہیں کریں گے۔ تب تک معاشرے میں سدھار ممکن نہیں ہے۔رقیب پر کسی شاعر نے خوب کہا ہےکہ

رقیب کا لفظ اس باب میں نہیں آئے گا

اس کا ذکر اب کسی کتاب میں نہیں آئے گا

چلو رت جگا منائے اب سونے سے کیا حاصل

وہ اب میرے کسی خواب میں نہیں آئے گا

اللہ سے دعا گو ہوں کہ ہمیں ان معاشرتی سماجی علتوں سے محفوظ فرمائے آمین۔

Check Also

Shirini Khori Aur Khuda Fehmi

By Mojahid Mirza