Thursday, 16 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Rab Ka Noor

Rab Ka Noor

رب کا نور

ایک وقت تھا جب دودھ کو رب کے نور سے تشبیہ دی جاتی تھی۔ پانی کا ایک قطرہ بھی شامل کرنا گناہ کبیرہ سمجھا جاتا تھا۔ حضرت عمر رع کا واقعہ بھی ہم بچپن میں پڑھ چکے ہیں کہ کیسے ایک ماں نے اپنی بیٹی کو دودھ میں پانی ڈالنے کے لئے کہا تو کیسے بیٹی نے اپنی ماں سے مکالمہ کیا۔ ہم سب کے لئے ایک سبق آموز تھا۔ اس کے ساتھ یہ حدیث مبارکہ بھی پیش نظر رکھنی چاہئے کہ جس نےملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں۔ ہماری اس بات کو اغیار نے اپنا نصب العین بنا لیا۔ اور دنیا میں اغیار کی ہر پروڈکٹ ملاوٹ سےپاک ہوتی ہے۔

مجھے الحمد اللہ عمرہ کرنے کا شرف حاصل ہوا تو ایک دن زیارتوں کے حوالے سے مکہ مکرمہ سے باہر نکلے تو ایک جگہ بدو اونٹ سڑک کنارے لیکر کھڑے تھے۔ اور وہ اونٹنی کا تازہ دودھ پلانے کی آفر دے رہے تھے۔ ہم سب نے بھی فیصلہ کیا کہ ہمیں اس آفر سے فائدہ اٹھانا چاہئے سو ہم نے بدو کو بلایا اور دودھ لانے کے لئے کہا اس نے ایک برتن لیا اور اونٹنی کے پاس چلا گیا ہمارا ایک ساتھی کچھ سمجھدار تھا وہ بھی فورا اس کے پاس چلا گیا تو دیکھا کہ وہ برتن آدھا پانی سے بھرا ہوا تھا۔ یہ وہ باقی پانی تھا جو اس نے صفائی کے بعد صفائی سے دودھ کی مقدار میں اضافہ کرنا تھا۔ ہمارے ساتھی کی چابک دستی نے ہمیں اونٹنی کاخالص دودہ مہیا کروایا۔

یہ وہ ملک جس کی قانون کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت کہ ملٹی نیشنل پیکنگ میں دستیاب دودھ اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے نا خالص ہونے پر کوئی شبہ نہیں۔ اگر وہ دودھ جتنا بھی آپ پی لیں طبعیت پر بوجھ نہیں بنتا بلکہ طبیعت ہشاش بشاش رہتی ہے۔ اس کے الٹ ایک سچا واقعہ ہمارے ایک جاننے والے بزرگ عرصہ دراز سے اپنےگاؤں سے دودھ ایک پوش ایریا میں دیتے تھے۔ وہ کہتے کہ ایک دن میرے دل میں یہ خیال آیا کہ ان لوگوں کو پانی ملا کر بہت دودھ دیا ہے کیوں نہ آج سے ان کو خالص دودھ دے دیا کروں۔ کہتے کہ جب وہ خالص دودھ دے کر اگلے دن گئے تو سب گھروں کی عورتوں نے شکایات کے انبار لگا دئے کہ کیسا خراب دودھ دے گئے تھے ہمارے بچے بیمار ہو گئے۔ کہتے وہ دن اور آج کا دن میں نے کبھی خالص دودھ دینے کی نیکی نہیں کی۔

چلیں پانی کی ملاوٹ تک بات رہتی تو گزارا ممکن تھا۔ لیکن یہ کیا کہ دودھ کے نام پر کیاکھلواڑ کھیلا گیا۔ بھلا ہو جج صاحبان کا جنہوں نے بتایا کہ جس کو آپ دودھ سمجھ کر استعمال کر رہے ہو وہ دودھ نہیں ہے۔ سچ بات یہ کہ جب تک نہیں علم تھا بہت بار وہ ٹی وائٹنگ کو دودھ سمجھ کر نوش کر چکے تھے۔ اور یہ سب اس دور کی حکومت کی ناک کے نیچےہو رہا تھا۔ پھر لاہور جیسے شہر میں صفائی رکھنے کے لئے بھینسوں کو باہر نکال دیا گیا۔ پہلے جو محلے کے لوگ تھے وہ خالص دودھ سےمستفید ہو جاتے تھے ان کو بھی محروم کر دیا گیا۔

گورنس تو یہ ہونی چاہئے تھی کہ کوئی میکانزم بنا دیا جاتا کہ جو کوئی بھی بھینس رکھناچاہتا وہ ان شرائط پر رکھ سکتا ہے بلکہ حکومت زیادہ سے زیادہ ان کو مواقع دیتی تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک خالص دودہ کی رسائی ہو سکتی۔ اب تو دیہات میں بھی دودھ دہی کی دکانیں نظر آتی ہیں۔ مطلب لوگ دودھ کے جانور اب گھروں میں نہیں رکھ رہے۔ دودھ کی ڈیمانڈ پوری نہیں ہو رہی۔ لیکن کھمبیوں کی طرح آپ کو دودھ کی دکانیں نظر آتی ہیں۔ وہ دودھ کیسا ہے آئے روز میڈیا پراس کے بارے میں بات ہوتی ہے۔ فوڈ اتھارٹی بھی گاہے بگاہے اس پر ایکشن لیتی ہے۔ دودھ کی ڈیمانڈ کی وجہ سے ریٹ بھی اوپر کی جانب جا رہے ہیں۔

ظلم یہ کہ ہم اپنی نسل کو دودھ کے نام پر زہر دے رہے ہیں۔ باالفرض دودھ کو خالص مان بھی لیاجائے آکسی ٹوسن جیسے ہارمون کے انجکشن کی مدد سے لیا گیا دودھ ہماری بچیوں کے جسم پر مضر اثرات مرتب کر رہا ہے۔ ہمیں اپنی نسل کو محفوظ بنانے کے لئے ایسے ممالک کی سٹڈی کرنی چاہئے کہ کیسے وہ اپنی ڈیری پروڈکٹ کو پوری دنیا میں سپلائی کرتے ہیں۔ ہمیں اپنا زرعی ملک ہونے پر فخر زرعی یونیورسٹی کی موجودگی میں بھی ڈیری ڈویلپمنٹ میں کار کردگی صفر ہے۔ بہت ضروری کہ ہرشہر کی آبادی کی ضرورت کو مد نظر رکھ کر جدید ڈیری فارم شہر کے اردگرد بنائیں جائیں۔

حکومت بیروز گاروں کو آسان شرائط قرضوں کے ساتھ ساتھ ان کو باہر سے جانور لانے ان کی افزائش ون ونڈو طرز پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرے۔ اس سے نہ صرف ہم اپنی ڈیری ضرویات پوری کر سکتے ہیں بلکہ اور ممالک میں بھیج کر زرمبادلہ بھی کما سکتے ہیں۔ اور علماہ اکرام سے گزارش کہ ملاوٹ والی حدیث پاک لوگوں کے ذہن میں پختہ کریں تا کہ کم از کم دودھ تو خالص مل سکے۔

Check Also

Teen Shayar Aik Khayal

By Anwar Ahmad