Thursday, 16 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Pewasta Reh Shajar Se

Pewasta Reh Shajar Se

پیوستہ رہ شجر سے

موسم بہار کی آمد آمد ہے۔ محکمہ جنگلات بھی انگڑائی لے رہا ہے۔ یہ پورا سال کہیں دکھائی نہیں دیتا، سال میں دو مرتبہ میڈیا میں اشتہار بازی کے ذریعے اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے پھر ستو پی کر سو جاتا ہے۔ محکمہ جنگلات کی ہر سال کی کارکردگی جو وہ اپنی پراگرس رپورٹ میں دکھاتا ہے۔ وہ صیح ہوتی تو آج ملک کے انچ انچ پر شجر کاری نظر آ رہی ہوتی جب کہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ملک میں موجود شیشم اور دیسی کیکر کے درخت ٹمبر مافیا لے اڑا، رہتی سہتی کسر شیشم کی جڑوں میں لگنے والی بیماری نے پوری کردی۔

موجودہ حکومت کی ہزاروں غلطیاں، کوتاہیاں ہو سکتی ہیں پر یہ کریڈٹ اس کو جاتا ہے کہ شجر کاری کی اہمیت کو سمجھا گیا اس پرعمل بھی کیا گیا گو کہ شفافیت پر سوال اٹھائے گئے ہیں پر بین الاقوامی سطح پر وزیر اعظم صاحب کی کاوش کو سراہا گیا ہے۔ جو کہ ہم سب کے لئے باعث افتخار ہے۔ ہمارا اصل مسئلہ شجر کاری نہیں، یہ ہر سال ہوتی ہے جدھر سے ہم مار کھا جاتے ہیں وہ شجر لگانے کے بعد اس کی پرورش کرنا بھول جاتے ہیں۔ نوزائیدہ پودا بھی ایک نومولود کی طرح ہوتا ہےاس کی دیکھ بھال اسی طرح متقاضی کرتی ہے، جیسے ہم ایک بچے کی کرتے ہیں۔

کچھ لوگ تو کہتے ہیں کہ پودے بھی باتیں کرتے ہیں۔ ان میں بھی خوشی غمی کی کیفیات پائی جاتی ہیں۔ سو ہماری شجر کاری مہم ادھر آ کر دم توڑدیتی ہے۔ انگریز دور میں درخت کو نمبر الاٹ کیا جاتا تھا۔ مجال ہے کہ کوئی سرکاری درخت کی شاخ کو بھی نقصان پہنچائے۔ ہمیں اس میکانزم پر جانا ہو گا۔ محکمہ جنگلات کو خواب ِغفلت اور ان کو اے سی آفس کے دفاتر سے با ہر نکال کر فیلڈ میں بھیجنا ہو گا۔ اور یہ سال میں ایک یا دو دفعہ کی مشق سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ زرعی یونیورسٹیز کے ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جو پورے ملک کا سروے کرے اور یہ تجاویز دے کہ کونسا ایریا یا زمین کس درخت کے لئے موزوں ہیں؟

اس میں پھل دار درخت بھی شامل ہوں، سایہ دار بھی، کمر شل استعمال کے لئے بھی، موسمی تبدیلی کے لئے بھی کونسے درخت موزوں ہیں؟ یہ کام پہلے نہیں کیا گیا اندھا دھند ہر جگہ سفیدے کے درخت لگا دئے گئے، تھوک کےحساب سے اس کوپانی بہت زیادہ چاہئے ہوتا ہے ہماری زیر زمین پانی کی سطح کم ہو رہی ہے اس میں ان پودوں نے بھی اپنا کمال دکھایا ہے۔ اب ایسی ریسرچ کےبغیر کوئی بھی اندھی تقلید نہیں ہونی چاہئے۔ کلائمنٹ چینج آرہا ہے۔ پانی کی کمی ہو رہی ہے۔ بارشیں کم ہو رہی ہیں۔ سو اس کے لئے ہمیں کمر بستہ ہونا ہو گا۔

درخت ہم نے اب اپنے لئے نہیں لگانے اپنی آنے والی نسل کے لئے لگانے ہیں، ہمارے لئے جو لگا کر گئے تھے ہم نے بےدردی سے ان کو بطور ایندھن استعمال کر لیا ہے۔ اب ہمیں آنے والے بچوں کا سوچنا ہے۔ ہمارےنہری نظام کو دنیا کا بہترین نظام مانا جاتا تھا۔ پر اب اس پر بھی ہماری روایتی سستی غالب آنے لگی ہے۔ نہروں کےکنارےپر بنی کچی سڑک کسی بھی طرح تار کول سے بنی سڑک سے کم تر نہیں ہوتی تھی۔ علاقے کے بیلدار کا ایک اپنا رعب طمطراق ہوتاتھا۔ وہ اپنے حصے کی بیٹ کا ذمہ دار ہوتا تھا۔ درختوں کی حفاظت سے لیکر سڑک کی صفائی تک وہ ہمہ وقت اپنے کام میں جتا رہتاتھا۔

اب ایسا نہیں ہے ایسا کیوں نہیں ہے؟ یہ جواب وہ محکمہ انہار یا محکمہ جنگلات کے افسران دے سکتے ہیں جو بیلداران سےڈیوٹیاں اپنی کوٹھیوں پر لے رہے ہیں۔ تنخواہیں ان کو عوام کے ٹیکس سے ادا کی جا رہی ہیں۔ جتنا نہری نظام ہے زرعی یونیورسٹی کے ماہرین کے مشاورت سے اس کے کناروں پر پھلوں کے درخت اور پودے، بیلز لگا دی جائیں تو ہم پھلوں کی پیداوار میں خود کفیل ہو سکتے ہیں۔ اور نہیں تو کم از کم غریب کو پھل تک رسائی آسان ہو جائے گی۔ یہ بیلداران کی زیر نگرانی ہو سکتا ہے۔ یا جو بھی گریجوایٹ شوق رکھتا ہو، مقامی ہو، اس کو پٹہ پر تین کلو میٹر کی پٹی الاٹ کر دی جائے جوان پودوں کی پرورش بھی کرے اور ان سے پھل حاصل کر کے اپنا روزگار بھی کمائے۔

پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ یہ شاعر نے تو کسی اور مقصد کے لئے لکھا ہو گا پر میں اس کو اسی شجر کاری مہم کے حوالے سےزیادہ موزوں سمجھتا ہوں، کہ ہم اپنی نسل کو شجر کاری کے ساتھ اسی طرح جوڑ کر رکھیں کہ ان کی زندگیوں میں شجر کاری کے ثمرات بہار بن کر آئیں۔

Check Also

Ban Bas, Riyasat Ho Maa Jaisi

By Amir Khakwani