1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Munafqat

Munafqat

منافقت

منافقت کے لغوی معنی ہیں۔ ظاہر اور باطن میں فرق ہونا۔ عرف عام میں جس کو دوغلا پن بھی بولا جاتا ہے۔ دو رخا بھی کہہ سکتےہیں۔ چہرے پر مسکراہٹ رکھنا اندر بغض سے بھرا ہونا۔ بظاہر دوستی کا لبادہ اوڑے رکھنا لیکن دل میں دشمنی پالنا اس طرح ہممنافقت کو کئی زاویوں سے پر کھ سکتے ہیں۔ منافقت کب سے معاشرے میں رائج ہوئی اس کا تو ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانا مشکل ہےلیکن کچھ تاریخی واقعات سے ہم یہ کہہ سکتے کہ یہ کافی پرانی بیماری ہے۔ جیسا کہ حضرت یعقوبؑس کے بیٹوں کا اپنے بھائی حضرت یوسف ؑ سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے کیسے اپنے با طن کو چھپایا اور بظاہر حضرت یوسف کے خیر خواہ بنکر ان کو ساتھ لے گئے۔

اسی طرح قرآن پاک میں سورہ منافقون میں فصاحت سے منافق لوگوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ اگر ہم اپنے معاشرے میں نظر دوڑائیں منافقت تو پہلے سے وجود رکھتی تھی لیکن اس کازیادہ فروغ یا نمایاں کرنے میں ایک ڈکٹیٹرصاحب کا دور حکومت وجہ بنی آپ کہہ سکتے کہ حکومتی سر پرستی میں یہ وبا زیادہ ہوتی گئی۔ جو کہ آج معاشرے میں ایک زہر کی طرح سرائیت کر چکی ہے۔

ایک ملازم اپنے باس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے دن رات منافقت سے کام لیتا ہے۔ حتی کہ ایک خاوند بھی اپنی بیوی کے سامنےکئی مواقع پر منافقت سے کام چلا کر ہی عافیت محسوس کرتا ہے۔ قیامت کی کئی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی تھی کہ ایک وقت آئے گا کہ لوگ مظلوم کی بجائے ظالم کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ اس کے شر کے خوف کے سبب۔ آج کل قدم قدم پر اس طرح کے کئی واقعات ہم روزانہ دیکھتے اور سنتے ہیں یہ بھی ایکطرح سے منافقت کے زمرے میں آتی ہے۔

یہ بھی منافقت ہے کہ ہمارا ایک مخصوص طبقہ اس سہولت سے با آسانی فیض یاب ہوتا ہے۔ لیکن ایک غریب کے لئے اسے شجرممنوعہ بنا دیا جاتا ہے۔ یہ بھی ڈکٹیٹر صاحب کے کھاتے میں جاتا ہے۔ کئی سفید پوش اس مغربی مشروب سے فیض یاب ہوتےان کی سفید پوشی کا بھرم اس وقت تک رہتا جب تک وہ مغربی مشروب شہد نہیں بن جاتا۔ کہنے کا مقصد کہ جس کا نہیں علم وہی نیک کار لگتا لیکن قالین کے نیچے بہت کچھ چھپا ہوا ہے۔ یہ اصل ہمارا چہرہ ہے جس کو ہم نے منا فقت سے ڈھانپا ہوا ہے۔

اسی طرح آجکل سوشل میڈیا چادر اور چار دیواری کی جس طرح بے توقیری کر رہا ہے۔ سپائی کیمروں سے کسی کی پرائیویسی کو ہائی لائیٹ کر رہا ہے اور ہم سب بہت پاک باز بن کر اپنے اپنے گریبانوں میں جھا نکیں بغیر فتوی دینے اور خود کو فرشتہ ثابت کرنے میں کو ئی کسر اٹھا نہیں رکھتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس سے کئی گھر برباد ہو جائیں گے۔ بس اپنی ریٹنگ اور زیادہ سے زیادہ لا نے کے چکروں میں وائرل کرتے جاتے ہیں۔ اس دوران ہم اس تعلیمات کو بھول جاتے کہ اگر کسی کا عیب پتہ چلے تو اس کی پردہ پوشی کرو آج اگر تم کسی کا پردہ رکھو گے تو قیامت کے دن اللہ پاک اس کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔

چادر اور چار دیواری کے معا ملے میں بھی منافقت کا عنصر نمایاں نظر آئے گا۔ شامت اسی کی آتی جو ریڈار میں آ جائے۔ سب لٹھ لے کر اس کے پیچھے لگ جائیں گے خود ہم بیشک اس سے بھی زیادہ گناہ گار ہوں۔ اللہ ہمیں سچ بولنے سچ سہنے اور سچ کہنے کیتوفیق دے منافقت سے بچائے۔

اس منافقت کے ہوتے ہوئے ہماری سیاحت پنپ نہیں سکتی اگر سیاحت انڈسٹری کو کامیاب کرنا ہے تو ہمیں دبئی کے ماڈل کواپنا نا ہو گا اورمنافقت کے بت کو توڑنا ہو گا اور جو ہم اپنے اوپر پار سائی کا لبادہ اوڑھ کر دوسروں پر سنگ زنی کرتے اور طعنوں کے تیر چلاتے اس سے بچنا ہو گا یہی سچ ہے۔ جو ہمیں قبول کرنا ہو گا۔

Check Also

Ban Bas, Riyasat Ho Maa Jaisi

By Amir Khakwani