Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Maa Boli Zuban

Maa Boli Zuban

ماں بولی زبان

جو بچہ اپنے ماں باپ کی زبان سیکھتا ہےاس کو مادری زبان بولتےہیں۔ ما ہرِ نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ بچہ اپنی مادری زبان میں زیادہ بہتر طریقے سے سیکھتا ہے۔ اس بات میں کوئی دو آراء نہیں ہے۔ ۲۱ فروری کو مادری زبان کا عالمی دن منایا گیا ہے۔ اعدادو شمار کے حساب سے دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی مادری زبان چینی ہے۔ اس حساب سے پنجابی کو گیاریویں درجہ اور اردو زبان کو انیسویں درجہ پر رکھا گیا ہے۔ اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد مختلف زبانوں، ثقافت کے درمیان ہم آہنگی اور تعلق میں فروغ دینا مقصود ہے۔ پاکستان کےاندر بے شمار زبانیں بولی جاتی ہیں۔

ہر زبان کی اپنی خوبصورتی اور لطافت ہے۔ بڑے بزرگ اکثر یہ جملہ بولتے تھے کہ ہر چالیس کوہ(میل سے شاید کچھ زیادہ فاصلہ)کے بعد بولی بدل جاتی ہے۔ مطلب بولنے کا انداز ہر علاقے کے لئے مخصوص ہے۔ اردو ہماری قومی زبان ہے۔ جو کہ زیادہ بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ کچھ لوگ زبان کو ثقافت کا حصہ سمجھتے ہیں، دوسری آراء یہ پائی جاتی ہےکہ ثقافت اصل میں زبان کا حصہ ہے۔ زبان کے حوالے سے ایک لطیفہ یاد آ گیا کہ ہمارا عجب حال ہے، گھر میں ہم مادری زبان بولتے ہیں باہر ہم اردو میں بات کرتےہیں، تعلیم ہمیں انگریزی میں دی جاتی ہے۔ جب کہ قبر میں حساب عربی میں ہو گا۔

لیکن جو بھی ہو، مادری زبان کو فوقیت حاصل ہے یہ ایک سماجی تحفہ ہے جو ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتا ہے۔ انسان کی پہچان اس کی مادری زبان سے ہو جاتی ہے۔ مادری زبان سے جڑے ہوئے لوگ خود کو زیادہ پر سکون محسوس کرتے ہیں چہ جائیکہ جن گھروں میں اغیار کی زبان بولی جاتی ہے اور وہ بھی منہ کو ترچھا کرنا پڑتا ہے۔ مجموعی طور پر ہم غلامانہ سوچ کے حامل ہیں، ابھی تک غلامی کی سوچ اور اس کمتری کی سوچ سے باہر نہیں نکل پا رہے ہیں۔ انگریزی زبان کو ہم نے ترقی کا زینہ سمجھ لیا ہے۔ حالا نکہ ایک فلاسفر کا یہ کہنا ہے کہ انگریزی بولنا ذہین ہونے کی نشانی نہیں۔

ہمارے ہاں دو طبقات پائے جاتےہیں، ایک جو انگریزوں اور انگر یزی سے متاثر ہیں۔ گھروں میں اپنے بچوں کے ساتھ بھی انگریزی میں بولتے ہیں۔ فی زمانہ وہ لوگ ہمارے ہاں ہر شعبے میں چھائے ہوئے ہیں۔ دوسرے جو تعداد میں بھی زیادہ ہیں وہ اردو یا اپنی مادری زبان کے لوگ ہیں۔ ان لوگوں کو دفاتر میں چھوٹی موٹی نوکری تو مل جاتی ہےپر وہ کبھی بھی ان لوگوں کے کمپلیکس سے باہر نہیں نکل پاتے، جن کو انگریزی پر عبور حاصل ہوتاہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ زبان صرف نقطہ نظر سمجھانے کا زریعہ ہونا چاہئے، نہ کہ لوگوں کی سماجی حیثیت جج کرنے زریعہ۔

1974میں باہمی اتفاق رائے سے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ بتدریج اس ملک میں اردو زبان کو نافذ العمل کیا جائے گا۔ ملک کی عدالتوں نے بھی اس زبان کی حق میں فیصلہ دیا ہے۔ کچھ لوگوں نے انفرادی سطح پر بھی اردو ترویج کے لئے اپنے تئیں کوششیں کیں، جیسےجناب حسین احمد شیرازی صاحب نے بورڈ آف ریونیو کے رولز جو انگریزی زبان میں تحریر تھے ان کو قومی زبان میں تحریر کئے، جن پر ان کو انعامات بھی دئیے گئے۔

لیکن مجموعی طور پر ہم اردو زبان کو وہ حق نہیں دلا پائے، اس میں وہی لوگ رکاوٹ ہیں جو اس غلامانہ نظام سے بہرہ ور ہو رہے ہیں۔ جب تک ہم اس تفریق کو ختم نہیں کریں گے ہم ملکی ترقی کے اہداف حاصل نہیں کر پائیں گیں۔ موجودہ وزیراعظم صاحب اس فرق کو سمجھتے ہیں اور انہوں نے مختلف فورمز پر اس ایشو کو اٹھایا بھی ہے۔ ہم ان کی اس کاوش کو سراہتے ہیں، لیکن جب تک ہم تعلیمی نصاب، عدالتوں کے نظام اور کانفرنسز اپنی قومی زبان سے ہم آہنگ نہیں کرتے، تب تک تبدیلی کا خواب پایا تکمیل تک نہیں پہنچے گا۔

اردو زبان کا رونا اپنی جگہ، ہم ابھی تک انگریزوں کے بنائے قوانین نہیں بدل سکے، ہم وہ ڈریس کوڈ نہیں بدل پائے جوانگریزوں نے ہم مسلمانوں کو تحقیر کی وجہ سی ٹوپی، کلاہ بطور ویٹر رائج کیا تھا۔ ہم آج بھی ان کی اس نشانی کو لئے چل رہے ہیں۔ پارلیمنٹ، بڑے ہوٹلز، میس وغیرہ میں آج بھی اسی لباس میں ویٹر آپ کی خدمت کرتے نظر آئیں گے۔ یہ غلامی کی سوچ کی سب سے نچلی سطح ہے۔ اسی کو نہیں بدل پائے، باقی تبدیلی تو دیوانے کا خواب ہی ہے۔

Check Also

Apni Jaron Se Miliye

By Arif Anis Malik