Thursday, 16 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Khooni Khel

Khooni Khel

خونی کھیل

مشہور مقولہ ہے ایک صحت مند دماغ کے لئےایک صحت مند جسم کا ہونا ضروری ہے۔ صحت مند جسم کے لئے مناسب تگ ودو کر نی پڑتی ہے۔ فی زمانہ جب سے انٹر نیٹ ہماری زندگی میں داخل ہوا ہے بڑے چھوٹے سب جسمانی ایکسر سائز سے دور ہو گئےہیں۔ ہمارا رہن سہن رکھ رکھاؤ سب یکسر تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔ با لائے ستم فاسٹ فوڈ چین نے کسر پوری کر دی ہے۔ ہسپتالوں میں رش، دل کے امراض میں اضافہ، موٹاپا، فرسٹریشن، اور نفسیاتی امراض میں اضافہ کے اسباب کی بڑی وجہ لائف اسٹائل میں تبدیلی ہے۔

دوسری طرف معاشرے کی گھٹن، منافقت، نوجوان طبقے کو بے راہ روی اور منشیات کی طرف بڑی تیزی سے دھکیل رہی ہے۔ آئے روز سیالکوٹ جیسے واقعات کا ہونا ہمارے معاشرے کی شدت پسندی کی عکاسی کرتا ہے۔ ہمیں ٹھنڈے دماغ سے ان سب مسائل کا حل تلاش کرنا ہو گا۔ میری نظر میں پچھلے کچھ عرصہ سے کئی وجوہات کی بناء پر ہم کھیلوں، فنون لطیفہ، ثقافتی تہواروں جیسے صحت مند ایکٹوٹیز سے دور ہوگئے ہیں۔ انہی میں سی ایک تہوار بسنت بھی ہے۔ اس کے حق میں اور مخالفت میں دونوں طرح کی آراء پائی جاتی ہیں۔ لیکن ہمیں مجموعی طور پر دیکھنا چاہئے کہ کیا بہتر ہے۔

ہمارے ہاں باوا نرالا ہے۔ کراچی میں دہشت گردی تھی تو ڈبل سواری پر پابندی۔ محرم کا جلوس ہو۔ فون سروس بند کر دی جاتی۔ پتنگ میں خونی ڈور کا استعمال ہو بسنت پر پابندی۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ خونی ڈور استعمال کرنے بنانے والے سب کے لئے سخت قانون سازی ہونی چاہئے اور اس پر قانون کو حرکت میں آنا چاہئے۔ انسانی جان سے بڑھ کر کوئی اولی نہیں۔

دوسری طرف بسنت یا پتنگ بازی ایک اچھی ایکٹیوٹی تھی۔ معاشرے میں جہاں پہلے ہی خوشیوں کے مواقع کم کم ہیں۔ لوگوں میں میل جول سماجی تعلق میں دوری پیدا ہوتی جا رہی بسنت ایک ایسا تہوار بنتا جا رہا تھا کہ لوگ رشتے دار ایک شہر سے دوسرےشہروں میں آ جا رہے تھے۔ حتی کہ دوسرے ممالک سے بھی سیاح آنا سٹارٹ ہو گئے تھے۔ اور ہمارے ملک کے سوفٹ امیج میں اضافہ کا باعث بن رہے تھے۔ بسنت کو بھی کالا باغ ڈیم کی طرح شجرہ ممنوع بنا دیا گیا۔ اور انجانے میں ہم غیروں کے ٹریپ میں آ کر معاشرے کو مزید گھٹن میں مبتلا کر دیا۔ دشمن یقیننا اس پر بگلے بجا رہا ہو گا۔

انتظامیہ کے لئے سب سے آسان یہی ہے کہ اس کھیل پر پابندی رہے۔ اور وہ اپنا فیصلہ منوا لیتے۔ پتنگ بازی میں زیادہ حادثات خونی ڈور کی وجہ سے ہوتے اور موٹر سائیکل سوار اس کا شکار ہوتے۔ میری نظر میں اس کا حل موٹرسائیکل بنانے والی کمپنیز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مل کر نکال سکتے ہیں۔ موٹر سائیکل پر ایک سیفٹی راڈ لازمی کر دیاجائے۔ تو خونی ڈور سے تحفظ مل جائے گا۔ پر اس کا یہ مطلب نہیں کہ دھاتی ڈور کی اجازت دے دی جائے۔

بلکہ میں چاہتا کہ ایک اچھی مثبت سرگرمی جاری رہنی چاہئے۔ اس سے معاشرے میں بہتری آئے گی۔ سیاحت کو فروغ حاصل ہوگا۔ ملک کا سوفٹ امیج دنیا کے سامنے جائے گا۔ جو نوجوان منفی سرگرمیوں کا حصہ بنتے اس میں کمی آئے گی۔ شدت پسندی میں کمی ہو گی۔ سب سے بڑھ کر جو غریب لوگ اس انڈسٹری سے وابستہ ان کے روزگار کا راستہ کھلے گا۔

اگر کسی طرح یہ ممکن نہیں کہ اس کو عام کیا جائے تو پھر اس کو مخصوص مقام اور مخصوص تاریخ کے ساتھ ایک ایس او پی کےتحت اجازت دے دی جائے۔ جس طرح لینڈ مافیا نے کھیلوں کے گراؤنڈ پارکس کی جگہ دیکھتے دیکھتے غائب کی ہے۔ دوسری کھیلوں کے مواقع بھی کم ہو گئے ہیں۔ اگر شدت پسندی اور منشیات سے اپنی نسل کو بچانا ہے تو جلد از جلد کھیلوں کی سر گرمیوں کو عام کرنا ہو گا۔ کھیل سے ہی انسان میں برداشت کا مادہ پیدا ہوتا ہے۔ جو کہ آج کی نسل میں معدوم ہوتا جا رہا ہے۔

ضروری نوٹ۔ اس تحریر سے یہ نہ سمجھا جائے کہ میرا کوئی پتنگ بازی کے کاروبار سے کوئی مفاد وابستہ ہے۔ اور نہ ہی زندگی میں کبھی پتنگ بازی کی ہے۔ بندہ صرف کھیلوں کے فروغ کا متمنی ہے۔

Check Also

Kitaben Parhne Ke Mausam

By Sondas Jameel