Thursday, 16 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Khel Se Khilari Tak

Khel Se Khilari Tak

کھیل سے کھیل تک

کسی بھی معاشرے کی سمت یا اس معاشرے کا چہرہ دیکھنا ہو تو کھیلوں کے رحجان سے با آسانی لگایا جا سکتا ہے۔ اگر اس فارمولےکو ہم اپنے پر اپلائی کریں تو پکچر حوصلہ افزاء نظر نہیں آتی۔ اسی طریق پر اگر ہم موجودہ اولمپکس میں دوسرے ممالک کی کھیلوں کےساتھ وابستگی اور ان کے حاصل کردہ میڈلز کی تعداد پر نظر دوڑائیں تو ہر بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ہم دنیا کےمقابلے میں کہاں کھڑے ہیں۔ اور ہمارے معاشرے کی ترجیحات کیا ہیں۔

آبادی کے لحاظ سے ہمارے ملک کا شمار چند بڑےممالک میں ہوتا ہے۔ اولمپکس میں ایسے ممالک نے بھی گولڈ میڈل لیا جن کی آبادی چند ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ تو سوچنے کی بات کہ ہم یہ سب کیوں نہیں کر پا رہے یا ہم سرے سے یہ کرنا ہی نہیں چاہتے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو آجکل ہر محب وطن کی زبان پرہے۔ پاکستانی عوام کا پیسہ کھیلوں میں فروغ کی بجائے مینجمنٹ کے اکاؤنٹ میں فروغ پا رہا ہے۔ جو سالوں سال سے اپنے عہدوں پرپوری ڈھٹائی سے برجمان ہیں۔ ان کا ضمیر کبھی نہیں جاگتا کہ بس بہت ہو گیا۔

کیا یہ اتنا پاور فل مافیا ہے کہ حکومت بھی ان کےسامنے بے بس ہے۔ جس لیول پر اب ہماری گیمز ہیں اور اگر اسی سیٹ اپ ک ساتھ رزلٹ لینا چاہتے ہیں تو دیوانے کے خواب سے زیادہ اس کا وجود نہیں۔ جب ہم ہر کام کے لئے چائنا کی طرف دیکھتے ہیں تو کیا کھیلوں کے فروغ کے لئے ہم چائنا سے مدد نہیں لے سکتے؟ اس میں کوئی دو آراء نہیں کہ ہماری قوم میں ٹیلنٹ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ بس اس کو ڈھونڈنا پالش کرنا مقصود ہے۔ جیسا ہیرے کو اچھا جوہری ہی پہچان کرتا ہے کھیلوں میں بھی چند اچھے جوہری چاہئیں جو کہ ہیروں کی پہچان کر سکے۔ اور ان کی تراش خراش اچھے سے کرے۔

بہت ضروری کہ ہم ایک لانگ ٹرم پالیسی بنائیں جس میں گراس روٹ لیول سے اوپر تک اس کولے کر جایا جائے۔ گولز سیٹ کئے جائیں۔ نئے سرے سے گیمز کی درجہ بندی کی جائے۔ اس کے لئے چائنیز ماڈل سے استفادہ کیاجائے۔ گرلز کی گیمز جیسے بیڈ منٹن ٹیبل ٹینس پیراکی وغیرہ گو مرد حضرات بھی یہ گیمز کھیلتے ہیں۔ ان کے لئے بین الاقوامی معیار کےاپنے کوچز تیار کئے جائیں جب تک ہم اپنے کوچز اچھے نہیں بنائے گے رزلٹ صفر ہی رہے گا۔

سب سے بڑھ کر جتنی بھی انڈورگیمز ہیں ہر شہر میں جیسے بھوکوں اور مسافروں کے لئے پناہ گاہیں قائم کی گئی ہیں کھیلوں کے بھوکے اور بھٹکے ہوئے کھلاڑیوں کو بھی حکومت یا مخیر حضرات کی تعاون سے ہالز بنا کر دے اور اس میں فری ممبر شپ دی جائے جب تک ہم اپنی نسل کو کھیلوں کی ترغیب نہیں دیتے معاشرہ میں ابتری رہے گی۔ کھیل سے انسان کے اندر برداشت کا مادہ پیدا ہوتا ہے جو فی زمانہ بہت ضروری ہے۔

ہمیں صرف ایک کرکٹ کو ہی سب کچھ نہیں سمجھ لینا چاہئے دنیا میں اور بھی غم ہیں اس کے سوا والا معا ملہ ہے۔ ہمیں اسکول لیول سے ہی فزیکل ایجوکیشن کی تعلیم دینی چاہئے اور اس امر کو یقینی بنائے کہ ہر گورنمنٹ اسکول میں انڈور گیمز کے لئے ہالز موجودہوں اور روزانہ کی بنیاد پر گیمز کا پیریڈ لازمی ہو اسکول لیول سے ہی بچے کی گیم میں دلچسپی کو مد نظر رکھ کر صرف اسی گیم میں اس کوگروم کیا جائے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے ہیروز کو ان کا جائز مقام دینا چاہئے جو مرنے کے بعد ہم ان کے لئے کرتے بہت ضروری کہ ان کی زندگی میں ان کا ہر طرح سے خیال رکھیں۔ چاہے انہوں نے کھیل کے میدان میں یا کسی بھی طرح ملک کا جھنڈابلند کیا ہو۔ بحثیت قوم ان کی خدمات کو یاد رکھیں ان کو عزت دیں وہی قومیں ترقی کرتی جو اپنے قومی ہیروز کو یاد رکھتی ہیں اور انکے نقش قدم پر چلتی ہیں۔

ہمیں بھی دنیا میں اپنا سوفٹ امیج کھیلوں کے زریعے ہی متعارف کروانا ہے۔ لیکن یہ زنگ آلود زہنوں ناکارہ چلے ہوئے کارتوسوں سے چھٹکارہ پائے بغیر ممکن نہیں سخت احتساب کیا جائے سابقہ ریکارڈ کی چھان بین کی جائے نئے قوانیناور ان پر عمل درآمد کیا جائے حکومت کوئی بھی آئے لیکن کھیلوں کی بنائی گئی قومی پالیسی میں تبدیلی نہیں آنی چاہئے۔

Check Also

Ban Bas, Riyasat Ho Maa Jaisi

By Amir Khakwani