1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Kabhi Ke Din Bare Kabhi Ki Raaten

Kabhi Ke Din Bare Kabhi Ki Raaten

کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں

یہ کہاوت یاد آئی ایک تصویر دیکھ کر جس میں چیف آف آرمی سٹاف موجودہ وزیر اعظم کے ساتھ آفیشل ملاقات کر رہے ہیں۔ بے نظیر صاحبہ اکثر فرماتی تھیں کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ اس بات کی سمجھ بھی اب آئی۔ یہ ٹھیک ہے کہ سلیوٹ شخصیت کونہیں ہوتا عہدہ کو دیا جاتا ہے، اور فوجی ٹریینگ میں یہی بات سمجھائی بھی جاتی ہے۔ پر عام انسان اس نہج سے نہیں سوچتا یہی وجہ ہےکہ وہ اس حالیہ تصویر کو دیکھ کر بے چینی محسوس کر رہا ہے۔

یہ کیسا قانون ہے؟ یہ کیسی جمہوریت ہے؟ یہ کیسی اخلاقیات ہے؟ کہ جوملک کا لیڈر ہو اس کی ذات شدید تنقید کی زد میں ہو اور وہ ضمانتوں پر ہو اصولی اور اخلاقی طور پر ان کو خود ہی اس منصب سےالگ رکھنا چاہئے تھا۔ اس سے عوام میں ان کی قدرومنزلت میں اضافہ ہوتا۔ بہتر ہوتا وہ عدالتوں سے خود کو کلئیر کروا کے اس منصب پر فائز ہوتے۔ ان کے اس عمل سے نوجوان نسل کو کیا پیغام دیا گیا؟

ان کے اس عمل نے بھی عمران کے بیانئے کو نئی جہت دی نوجوان نسل یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ ایک گورنمنٹ ملازم بھرتی ہونے کے لئے اس پر کوئی کیس نہ ہونا شرط ہے۔ پرملک کے سب سے بڑے انتظامی عہدہ کے لئے ایسا کوئی قانون سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ یہ بات بہت سے سوالوں کو جنم دیتی ہے۔ آئندہ کے لئے قانون سازی کی اہمیت کو واضح کرتی ہے کہ مستقبل میں ایسا کوئی شخص اس منصب کے لئے نا اہل تصور کیا جائے جب تک وہ خود کو عدالتوں سے کلئیر نہیں ہو جاتا۔

کیسی جگ ہنسائی ہے دنیا کو ہم اپنی قوم کا کیا امیج پیش کر رہےہیں؟ کہ باپ وزیر اعظم بیٹا ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ اور دونوں پر مالیاتی کرپشن کے الزام کیا ان کی پارٹی میں کوئی متبادل نہیں؟ ملک کے لئے تو جمہوریت کی ڈیمانڈ کرتے اپنی پارٹیوں میں موروثیت اور بادشاہت کے اصول اور بائیس کروڑ عوام جوتی کی نوک پر۔ عوامی نمائندوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ ایسا وہ کیوں کر کرتے، کیوں وہ اپنی پارٹی میں اس پر آواز بلند نہیں کرتے؟ کیوں وہ ان کے پیچھے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونے کو ترجیح دیتےہیں؟

جن کی اپنی سیاسی عمر ان لیڈروں کے پیدائش سے بھی زیادہ کی ہے۔ جب تک پارٹیوں کے اندر جمہوریت نہیں ہوگی ملک میں حقیقی جمہوریت خواب ہی رہے گا۔ ایٹمی قوت کی حامل فوج کے سربراہ کا اس متنازع شخص کے ساتھ تصویر کوعام انسان نے ناپسند کیا ہے۔ چہ جائیکہ آئین قانون پرعمل مجبوری ہے۔ موجودہ خاندان کے رویے کے بارے میں ایک بزرگ سیات دان نے فرمایا تھا کہ جب یہ لوگ اقتدار میں نہیں ہوتے گھٹنے پکڑتےہیں۔ جب اقتدار یا قوت میں ہوں تو گریبان پر ہاتھ ڈالتے ہیں اور یہی رویہ ان کی پارٹی کے نمائندوں کا بھی ہے۔

اس بات کی تصدیق اس بات سے ہو جاتی ہے کہ جو حالیہ پنجاب اسمبلی کا واقعہ اور فوج کے میجر کے ساتھ انفرادی واقع ہوا کہ جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے حکومت میں آئے ہوئےان بزرگ سیاست دان کی بات میں کتنی صداقت تھی؟ اس پارٹی کے پاس ایسی کیا گیدڑسنگھی ہے جو ہر بار ان کو اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان کر دیتی ہے اور پورا سسٹم ان کے پیچھے ہاتھ باندھ کے کھڑا ہو جاتا ہے۔ عوام بے بسی کی تصویر بنے پرانی تنخواہ پر کام کرنے پر با امر مجبوری راضی ہو جاتے ہیں۔ ایسا کب تک چلے گا؟ کوئی نہیں جانتا۔ پر اس تصویر نے ایک بات پر مہر ثبت کر دی کہ کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں۔

Check Also

Kabhi Aise Bhi Jootay Polish Karva Lein

By Rauf Klasra