Thursday, 16 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Haye Re Mehngai

Haye Re Mehngai

ہائے رے مہنگائی

مہنگائی بہت ہو گئی ہے۔ مہنگائی نے عام انسان کا جینا مشکل کر دیا ہے۔ یہ حکومت مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام ہو گئی ہے۔ اس حکومت کو گھر چلے جانا چاہئے یہ وہ با تیں یا نعرے ہیں جو ہم جب سے ہوش سنبھالا ہے سنتے اور پڑھتے آئے ہیں۔ نہیں یقین توہر دور حکومت کے پرانے اخبارات اٹھا کے پڑھ لیں۔ کافی افاقہ ہو گا۔ اپوزیشن جماعتوں کے لئے اس نعرے سے لوگوں کےجذبات سے کھیلنا اور حکومت کو کارنر کرنا سب سے آسان ہدف ہوتا۔

جب سے ایوب خاں کی حکومت کو چینی کے ریٹ زیادہ ہونے پر دشنام طرازی کا سامنا کرنا پڑاتب سے یہ وتیرہ بن گیا کہ ہر حکومت کو اس طرح رگیدا جائے اور ہر حکومت اس ہتھکنڈےسے متاثر ہو جاتی اور وہ بیک فٹ پر چلی جاتی ہے۔ ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں جس پر بیورو کریسی اور مہنگائی مافیا بازو مروڈ کر اپنی چاندی بنا لیتے عوام بیچارے خوش کن وعدوں پر سر دھنتے اور مہنگائی کی چکی میں پستے رہتے اور یہ گھن چکر اپنی رو میں بہتا رہتا۔

موجودہ حکومت بھی حکومت میں آنے سے پہلے ایسے ہی خوش کن نعروں کی بدولت اقتدار کےایوانوں میں پہنچی ہے۔ جو گرہیں ہاتھوں سے لگائی تھیں وہ اب دانتوں سے کھولنی پڑ رہی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک مکمل لانگ ٹرم پالیسی بنائی جائےسب اسٹیک ہولڈرز کو مشاورت میں شامل کیا جائے۔ ہمارا دوست ملک سعودی عرب اس کے ماڈل کو سٹڈی کیا جائے کیونکہ ہماری طرح وہ بھی زیادہ تر اشیاء باہر سے خرید کرتا ہے اور یہ بات بھی سچ کہ ان کی حکومت تیل کی کمائی سے سب سڈی فراہم کرتی ہے۔ سب سڈی ہماری حکومت بھی دیتی ہے جو اوپر کی سطح پر اربوں روپے کی ہوتی لیکن عوام تک پہنچتے پہنچتے سکوں یاروپے کی شکل میں پہنچتی جس سے عام یا غریب آدمی کی زندگی پر خاطر خواہ اثر نہیں پڑتا جوں حکومت کی اربوں کی کاوش کسی کھاتے میں نہیں جاتی اور عوام کے غیض و غضب کا نشانہ بنتی ہے۔

اس کی مثال یو ٹیلٹی سٹورز کا دوبارہ سے اربوں روپے لیکرعوام تک سستی اور معیاری اشیاء کا حصول نہ ہونا ہے پتہ نہیں کس طرح بیورو کریسی حکومت کو اپنے دوام میں پھنسا لیتی ہے یہ وہی مردہ گھوڑا ہے جو اپنی موت آپ مر چکا تھا اس کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو بھینس دودھ دینا چھوڑ دیتی ہے اس کو ذبح کرنا ہی مفید ہوتا۔ اگر یو ٹیلٹی سٹور ز کی کارکر دگی پر نظر ڈالیں سوائے کاغذی کاروائی کے صفر بٹا صفر ہے۔

کیا یوٹیلٹی سٹور ہماری آبادی کے تناسب سے موجودہیں؟ کیا یوٹیلٹی سٹور ہر اس مارکیٹ میں موجود جہاں سے عام لوگ خریداری کرتے؟ کیا یوٹیلٹی سٹور میں موجود اشیاء کی کوالٹی وہی ہوتی جو ہم عام کریانہ سٹور سے خریدتے؟ اور سب سے اہم کیا عام دیہاڈی دار مزدور جو کہ آبادی میں سب سے زیادہ تعداد میں کیا وہ سو روپیہ میں اپنی روزمرہ کی چیز کیخریداری یوٹیلٹی سٹور سےکر سکتا؟

میں خود شاہد ہوں کہ ایسے لوگ محلے کی کریانہ شاپ پر سو روپیہ دے کر اس روز کے لیئے خوردونوش کی چیزیں لیتے ہیں اس طرح کے بیشمار ایسے سوالات ہیں جو اس یوٹیلٹی سٹور کے بارے میں پوچھے جا سکتے جن کا جواب یقیننا نفی میں ہے۔ یہ بات حکومتکے سوچنے کی ہے۔

بات ہو رہی تھی مہنگائی کی جن لوگوں نے چیزوں کے حکومتی ریٹ لسٹ کو لاگو کروانا وہی لوگ تو روزانہ اور ماہانہ کی بنیاد پر اپنی دیہاڈیاں لگاتے اور جو ریڑھی بان یا گلی محلے کا پرچون فروش ان کی لسٹ میں نہیں آتا وہ کاغذی کاروائی کے زمرے میں آ جاتا اورحکومت خوش ہو جاتی کہ اتنے لوگوں کے چا لا ن کئے گئے ہیں۔ اس محکمے کو سرے سے ختم کر دینے میں ہی بہتری ہے کم از کم کرپشن کا ایک باب ختم ہو اور یہ بھی بتا دیں یہ حکومت کی خام خیالی ہی کہ اس ادارے کو استعمال کر کے مہنگائی کے جن کو قابوکیا جا سکتا ہے۔

سب سے اہم اور عام بات کہ جس چیز کی ڈیمانڈ زیادہ ہو گی اور وہ مارکیٹ میں کم یا ناپید ہو گی ریٹ اوپر چلا جائے گا۔ اصل ایشوڈیمانڈ اور سپلائی کے چین کو موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ بد قسمتی سے ہمارا شماریات کا اداراہ دفتروں میں بیٹھ کر رپورٹ تیار کرکے دے دیتا جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا جس سے حکومت غلط ٹائم پر غلط فیصلے لیتی اور پھر وہ سبکی کا سامناکرتی اور عوام مہنگائی کا اس کی حالیہ مثال چینی اور آ ٹے کے سٹاک میں غلط اندازے لگانے سے حکومت کو با ہر سے گندم اورچینی منگوانی پڑی۔ بہت ضروری ہے کہ اس شماریات کے ادارے کو از سرے نو تشکیل دیا جائے اور نادرا کے ادارے کی طرز پراس کو سائنسی بنیادوں پر ڈیجی ٹا لائز کیا جائے تا کہ بر وقت اور صیح معلومات حاصل ہوں ان کی بنیاد پر ڈیمانڈ اور سپلائی کو اچھےسے لا گو کیا جائے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہم عوام کو بھی سوچنا چاہئے کہ ہم برانڈڈ پروڈکٹ کی سوچ سے با ہر نکلے اپنی ملکی مصنوعات کو تر جیح دیں جب ہم زرعی ملک ہونے کا دعوی کرتے تو شرم کا مقام کہ ہمیں زراعت سے منسلک اشیاء باہر سے ڈالروں میں خریداری کرنی پڑھتی۔ جو لا محا لا مہنگائی کا سبب بنتی۔ من حیث القوم جب کوئی چیز مارکیٹ میں کم ملنے لگتی ہم ناچاہتے ہوئے بھی زیادہ سے زیادہ خریدکر کے سٹور کرنے کی کوشش کرتے جس سے ریٹ مزید اوپر چلا جاتا اس کے لئے قوم کو یکسو ہونا پڑے گا۔

اس کے ساتھ ساتھ چینی اور آٹے کا مافیا جو کہ انگلیوں کے ٹپس پر گنے جا سکتے ہیں اور یہی لوگ ہر حکومت میں اور اسمبلیوں میں موجود انہی کے ترجمان لوگوں کو مہنگائی پر بڑی ہی ڈھٹائی سے ورغلاتے ہیں اور کیا ہماری قوم ہیں ہم انہی لوگوں کے جھانسے میں آکر انہی لوگوں کے ایمپائیر کا تحفظ کر رہے ہوتے مطلب ہماری جوتیاں ہمارے سر خدارا شعور بیدار کیا جائے کب تک ہم ایسے چندخاندانوں کے چنگل میں پھنسے رہے گے۔ اور یہ رب کا فیصلہ کہ جیسے لوگ ہوں گے ویسے ان پر حکمران مسلط ہوں گے۔

اگر حکومت وفاقی سطح پر ایسی ٹیم تیار کرے اور سیٹزن پورٹل ایپ کی طرز پر شکایت کنندہ کی شناخت کو خفیہ رکھنے اور اس کوخوردونوش کی اشیاء کے سٹاک یا زخیرہ اندوزی کی اطلاع پر ایک مخصوص رقم اداکرنے کی یقین دہانی کروا دی جائے تو جو مافیاسٹاک یا زخیرہ اندوزی کر کے مصنوعی مہنگائی کرتا پکڑ میں آ جائے گا لیکن یہ ٹیم مقامی انتظامیہ کے کنٹرول میں نہیں ہونی چاہیئے۔ اس سے آپ دیکھیں گے کے انہی مافیاز کے ورکر ایک میسج کر کے اپنا حصہ وصول کر سکتے اور مافیا بھی سٹاک کرتے ہوئے سو بارسوچے گا آزمائش شرط ہے۔

مہنگائی بیروزگاری میں ایک اہم فیکٹر آبادی کا اژ دہام ہے ہم اپنی آبادی کو کنٹرول نہیں کر پا رہے آبادی بڑھتی جا رہی سورس کم سےکم ہو رہے یہ با ت بھی لوگوں کے دماغ میں رسخ کرنے کی ہے دیکھنے میں یہی آتا جو جتنا فارغ ہے اس کے بچوں کی تعداد بھی زیادہہے۔ ہم اپنی شہروں کے ساتھ موجودزرعی زمینوں کو پراپرٹی مافیا کے ہاتھ فروخت کر چکے بہت ضروری کہ ہم زیادہ سے زیادہ زرعیزمین کو فروغ دیں اور کم از کم خوردونوش کی چیزیں اپنے ملک میں پیدا کریں اور زیادہ پیدوار کر کے برآمد بھی کریں تا کہ ملکی خزانےمیں اضافہ ہو۔

Check Also

Heera Mandi

By Sanober Nazir