Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Haqooq e Niswan

Haqooq e Niswan

حقوق نسواں

آٹھ مارچ عورتوں کے حقوق کا عالمی دن ہے۔ ہمارے مذہب اسلام نے تو آج سے چودہ سو سال پہلے عورتوں کے حقوق تفویض کردیئے تھے۔ ایک وہ زمانہ جاہلیت تھا جب بیٹی کی پیدائش کو نحوست خیال کیا جاتا تھا۔ اور اس کو زندہ در گور کر دیا جا تا تھا۔ لیکن ابھی بھی مذہبی تعلیمات کے بر عکس ہمارے معاشرے میں لڑکی کی پیدائش پر خوشی کے شادیانے نہیں بجائے جاتے میانوالی کاواقعہ جو کہ انتہائی افسوس ناک قابل مزحمت پورے معاشرے کے منہ پر ایک طمانچہ ہے کہ ہم اب بھی زمانہ جاہلیت میں جی رہےہیں۔

سگے باپ نے اپنی چند دن کی بیٹی کو فائرنگ کر کے مار دیا۔ وجہ عناد کہ بیٹا چاہئے تھا۔ بیٹے کی خواہش جائیداد کا وارث بننےنسل کا آگے بڑنا جیسے فرسودہ خیالات گھر کے بڑوں اور ہمارے معاشرے کی پیدا کردہ توجہحات ہیں۔ اور بیٹی کی پیدائش پر عورت کوازل سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حالانکہ سائنس یہ ثابت کر چکی ہے کہ بیٹی کی پیدائش کا ذمہ دار باپ ہوتا ماں نہیں۔ اور کئی لوگناواقفیت کی وجہ سے وارث کے چکر میں کئی شادیوں کے بندھن میں بندھ جاتے اولاد نرینہ پھر بھی نصیب نہیں ہوتی۔

اسلام نے عورت کو بہت اونچا مقام دیا ہے۔ قران پاک میں سورۂ نساء موجود ہے۔ ماں کے قدموں کے نیچے جنت رکھ دی گئیہے۔ ہمارے پیارے نبی ص کی بیٹی جب تشریف لاتیں تو آپ ان کا کیسے استقبال کرتے تھے۔ یہ سب ہم سب کے لئے مشعلراہ ہے۔ اور بیٹی کو رحمت سے نوازا گیا ہے۔ اور فرمایا گیا ہے کہ جس نے اپنی دو بیٹیوں کی پرورش کی وہ جنت میں جائے گا۔ اتنےواضح پیغامات کے باوجود ہم دقیانوسی سوچ سے چھٹکارہ نہیں پا سکے ہیں۔

اسی طرح عورت کی تعلیم و تربیت پر زور دیا گیا ہے کہتے مرد کو تعلیم دی جائے تو فرد واحد کی تعلیم ہے اگر عورت کی تعلیم وتربیت کی جائے تو وہ ایک نسل کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنتی ہے۔ جو ملک خود کو عورتوں کے حقوق کے چمپئن سمجھتے وہاں بھی صنف نازک سے کوئی اچھا برتاؤ نہیں ہوتا ہم پھر بھی اس بات پر نازکر سکتے کہ اس ملک کی دو دفعہ سر براہ ایک عورت بنی ہے جو کہ امریکہ جیساملک بھی عورت کو سر براہ بنانے میں ناکام رہا ہے۔

ہمارے معاشرے کو مردوں کا معاشرہ کہا جاتا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے ہم سب اس کے قصور وار ہیں۔ ہمارا لڑکے کے حوالےسے اور پیمانہ ہے اور لڑکی کے لئے اور لڑکی سے غلطی ہو جائے تو ناقابل معافی جرم بن جاتا اور غیرت کے نام پر قتل معمولی باتسمجھا جاتا ہے۔ لڑکا غلطی کرے تو نا سمجھی سے تعبیر کیا جاتا ہے جو کہ اس معاشرے کی دوغلی پالیسی اور منافقت کو عیاں کرتاہے۔ لڑکا جب اپنے باپ کو حاکم کے روپ میں دیکھتا ہے تو وہ ایک طرح سے انجانےاس بچے کا مائنڈ تیار کر راہاہوتا کہ تم کوفوقیت ہے سو اس کا بھی جب بس چلتا تو وہ اپنی بہنوں بعد میں اپنی بیوی سے وہی رویہ اپناتا جو اس نے اپنے باپ سے سیکھاہوتا۔ یہی وجہ کہ ہم معاشرے میں سدھار نہیں لا پائے۔

ہمارے معاشرے میں عورتوں کی نا قدری کروانے میں معذرت کے ساتھ شعراء کرام کا بھی ہاتھ ہے صنف نازک پر ایسی ایسی طبع آزمائی کی گئی کہ الحفیظ الامان۔

رہتی سہتی کسر ہمارے سٹیج ڈرامہ نے پوری کر دی ہے جگت بازی نے نوجوان نسل کی اخلاقیات کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ ایسےایسے جملے ماں بہن بیوی کے لئے بول دیئے جاتے جو اخلاقیات سے گرے ہوتے اور ستم ظریفی یہ کہ ہم ہال میں موجود سب مرداس پر داد تحسین بھی دے رہے ہوتے ہیں۔ اس پریکٹس نے بھی ہماری نسل کو اسلامی اخلاقی روایات سے دور کر دیا ہے۔ بہنبیٹی بیوی جیسے مقدس رشتے کی وقعت کم کر دی ہے۔

بہت ضروری ہے ہم اپنے فیملی سسٹم میں سدھار لائیں اپنے بیٹوں کی پروشاس انداز سے کریں کہ عورت کی تقدس کا پاس ہر حال میں رکھے چاہے وہ بہن کے روپ میں ہو بیٹی کے روپ میں بیوی کےروپ میں یا ماں کا انمول رشتہ ہو۔ اور جو اس تربیت میں سب سے بڑا رول جو ادا کر سکتی ہے وہ ایک ماں ہی ہے۔ جب تکعورت خود اپنے حقوق کا تعین نہیں کرے گی مظلومیت کا سفر جاری رہے گا۔ اللہ ہم سب کو حقوق العباد کی سمجھ عطا فرمائے اوراس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔

معاشرے میں موجود ناسور وڈیرے جاگیر دار عورت کو اپنی پاؤں کی جوتی سمجھنےوالے عورت کو ایک کھلونا سے زیادہ اہمیت نہ دینےوالوں کو بھی عقل سلیم عطا فرمائے۔ عورتوں کے حقوق کے عالمی دن کے حوالے سے ہم سب مرد کہیں نہ کہیں عورتوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے حقوق غصب کرنےمیں کسی نہ کسی طرح شامل ہیں ہمیں اس کا کھلے دل سے اعتراف کرنا چاہئے اور اپنی اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔ تا کہ معاشرے میں سدھار لایا جا سکے۔

Check Also

Manzil Yehi Kathin Hai

By Zafar Iqbal Wattoo