Thursday, 16 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Footpath

Footpath

فٹ پاتھ

پاکستان کو آزاد ہوئے تقریبا چوہتر سال ہونے کو آئے ہیں۔ ہم خود کو تو آزاد قوم تصور کرتے ہیں۔ لیکن اپنے فٹ پاتھ قبضہ مافیاسے آزاد نہیں کرواسکے۔ تبدیلی سرکار کے بلندو بانگ دعووں سے کچھ امید بندھی تھی۔ کہ آتے ہی گورنر ہاؤس کی دیواروں پر بلڈوزچلائیں گے۔ سب باتیں ہوا ہو گئی۔ یہ ٹھیک ہے کہ کچھ قبضہ مافیا کے خلاف قانون حرکت میں آیا ہے۔ پاکستان کی ہسٹری میں ہرالیکشن کے بعد توڑ پھوڑ غیر قانونی قبضے انتظامیہ کلین آپریشن کے نام پر کرتی ہے۔ پر یہ عمل بہتری یا نیک نیتی پر مبنی نہیں ہوتا۔ اسلئے اس کے دور رس نتائج نہیں ملتے۔ انتظامیہ کے لوگ نئی حکومت کو اپنی کار کردگی دیکھانےکی آڑ میں مال بناؤ کی پالیسی پر گامزنہوتے ہیں۔

انتظامیہ کے کارندے نئی حکومتی پالیسی کا حوالہ دے کر غیر قانونی جگہ کو استعمال کرنے والوں کو اٹھا دیتی ہے لیکن جلدہی ان کی جگہ پر وہی لوگ یا پھر جو زیادہ بولی دے دیتا ان کو دوبارہ سے پنپنے کا موقع دے دیتی ہے۔ مطلب اس جگہ کو نئے ریٹپر ایڈ جسٹ کر لیا جاتا ہے۔ اور یہ گھن چکر اگلے الیکشن تک چلتا رہتا ہے۔ اکثر نئے صاحب کے آنے پر بھی بھاؤ بڑھانے کےلئے یہ کھیل رچایا جاتا ہے۔ اور یہ پورا ایک مافیا ہے۔ اس حکومت نے بھی دوسروں سے زیادہ ایکشن لیا پر اب تین سال گزرنےکے بعد وہی جگہیں دوبارہ آباد ہونا سٹارٹ ہو گئی ہیں۔

ہمارے ہاں بیک اپ کا کو ئی نظام نہیں ہے۔ لاہور کا دل مال روڈ جس پراکثر دانشور اپنی یادوں کو ٹھنڈی آہ بھر کر سناتے ہیں۔ اس کے فٹ پاتھ کا ذکر بڑے شدومد سے کرتے ہیں۔ بہت افسوس سے کہناپڑ رہا کہ تبدیلی سرکار اور سائیں بزدار صاحب مال روڈ سے فٹ پاتھ کو کلئیر نہیں کروا سکے پنجاب کے دور دراز علاقوں کی مثال کیادیں۔ جو تھوڑا فٹ پاتھ پر چلنے کا موقع ملتا وہ پورے پاکستان کی حالت کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ میں حیران ہوں کہاس فٹ پاتھ کےسامنے قانون پر عمل درآمد کرنے والی بلڈنگ موجود ہے۔ اسی پر روزانہ پتہ نہیں کتنے وکلاء حضرات گزرتے مجال ہے کبھی کسی نے فٹ پاتھ پر چلنے والوں کے حقوق پر آواز اٹھائی ہو۔

وزیر اعظم صاحب کو سیاحت بڑھانے کا شوق ہے اگر کوئی سیاح غلطی سے اس فٹ پاتھ پر تاریخی ہونے کی وجہ سے واک کرنا چاہے تو وہ پاکستان کے بارے میں اچھی سوچ نہیں لے کرجائے گا۔ بالائے ستم یہ کہ وارڈن حضرات کا جم غفیر بھی وہیں موجود ہوتا بجائے وہ فٹ پاتھ پر غیر قانونی پارکنگ کو روکنے کے اکثرچالان کر کے گاڑیاں لفٹ کر کے عین فٹ پاتھ کے اوپر سجا کے رکھ دیتے اب بتائیں بندہ کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کرے۔

ہمیں مہذب بننے کے لئے شاید صدیاں بیت جائیں۔ ایک اور ٹرینڈ بھی بہت کامیاب دیکھا گیا ہے۔ خاص کر لاہور میں جو بھی غیرقانونی جگہ کو استعمال کرتے ایک سیاسی پارٹی کے فیملی ممبران کا پوسٹر آویزاں کر لیتے ہیں۔ مجال ہے کہ کوئی ان کی طرف آنکھ بھرکے دیکھ سکے یہ صرف ایک مثال تبدیلی سرکار کو ان کی ناکامی گڈ گورنس کا نہ ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ یہ دیگ میں سے چاول کاایک دانہ ہے پوری دیگ کیسی ہو گی؟

ہمیں خود بھی اپنے آپ کو بدلنا ہو گا اپنی شاپس کے آگے غیر ضروری تجاوزات کو اٹھانا ہو گا۔ پیدل چلنے والوں کے لئے آسانی پیداکرنی ہو گی۔ اجتماعی سوچ اور ملکی پراپرٹی کو ریاست کی امانت سمجھنا ہو گا۔ اور اپنے جائز حق کے لئے آواز اٹھانا ہو گی۔ جب تک ہم میں اجتماعیت نہیں آئے گی قبضہ مافیا ایسے ہی من مانیاں کرتا جائے گا جیسے قبرستان سکڑ گئے۔ میدان دیکھتے دیکھتے غائب ہو گئے۔ ہم سب یہ جانتے بوجھتے بھی کہ یہ سب مایا ہے کوئی ساتھ لیکر نہیں جاتا سب ادھر رہ جانا ہے بس ایک نفس ہے جو جائز ناجائز پرابھارتا رہتا اور جو کبھی نہیں بھرتا۔ لیکن انسان ضرور مر جاتا ہے۔ ایک سیاسی شعبدہ باز کی بازگشت اکثر سنائی دیتی کہ کفن کیکوئی جیب نہیں ہوتی۔ تب میں سوچتا ہوں کہ اتنا کھلا تضاد کیوں؟

Check Also

Kitaben Parhne Ke Mausam

By Sondas Jameel