Tuesday, 30 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Aik Girah

Aik Girah

ایک گرہ

دین ِاسلام میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ، اگر کوئی مہمان آئے تو اس کی خدمت کرو، چاہے اس کےلئے قرض ہی کیوں نہ لینا پڑے۔ مملکت ِپاکستان نے اس کو عملی طور پر کر کے دکھایا ہے۔ افغان جہاد کے دور سے ہم افغانیوں کی مہمان نوازی کرتے آ رہےہیں۔ چاہے اس کے لئےہمیں اغیار سے قرض ہی کیوں نہ لینا پڑ اہے۔ ملک کی اکانومی کا ٹھیک نہ ہونا، ڈالر پر کنٹرول نہ ہونا، بدامنی، منشیات کی بڑ ھوتری، غیر قانونی اسلحہ، اسمگلنگ، گندم چینی کا بحران، ملک میں بیروز گاری، ، قبضہ مافیا، سودی کاروبار، وغیرہ سب کے تانے بانے کوئی مانے یا نہ مانے، ان مہمان افغانیوں سے جا ملتے ہیں۔ کہتےہیں کہ" جس کے ساتھ نیکی کرو اس کے شر سے بچو"۔

یہ جو لسٹ گنوائی گئی ہے، یہ ہماری نیکی کے بدلے میں ہمارے حصے میں آئی ہے۔ ہم لوگ، خاص کر جن کا پنجاب سے تعلق ہے۔ بہت مہمان نواز اور رحم دل، کھلے دل کے مالک ہیں اور تعصب یا تعصباتی سوچ نہیں رکھتے ہیں، اور بہت حد تک ڈرپوک بھی ہیں۔ دوسرے صوبوں کی نسبت، پنجاب میں صوبائیت یا پنجابی تعصب اتنا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہےکہ، کراچی کے بعد اب لاہور ان افغان مہمانوں سے بھرا جا رہا ہے۔ لاہور کی سب اہم کاروباری مراکز پر ان افغانیوں نے اپنے پنجے گاڑھ لئے ہیں۔ پراپرٹیز خریدی جا رہی ہیں۔ حیرانگی کی بات ہےکہ، افغان شہری کو اپنا بینک اکاؤنٹ تک کھولنے کی بھی اجازت ہے۔

ایسا شاید صرف ہمارے ہی ملک میں اتنا آسان ہے کہ، پاکستانی شناختی کارڈ بنانا ہو، پاسپورٹ بنانا ہو، بینک اکاؤنٹ کھولنا ہو، یا کوئی بھی حکومتی دستاویزات بنانی ہو ں، ہمارے ہی لوگ بکاؤ مال بن جاتے اور اپنے ملک کی سلامتی، عزت وقار کو چند کوڑیوں کے عوض بیچ دیتے ہیں۔ ایسے کئی واقعات رپورٹ ہوئے ہیں کہ، ان افغانیوں نے پاکستانی پاسپورٹ پر منشیات اسمگل کی اور پکڑے گئے، بد نامی ہمارےملک کی ہوئی۔ گرین پاسپورٹ کی بے قدری کروانے میں بھی، ہمارے یہی بھائی پیش پیش ہیں۔ یہ بہت قوم پرست لوگ ہیں۔ یہ بالکل اسی ڈگر پر کام کر رہےہیں، جیسے برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی تجارت کی آڑ میں آئی تھی۔ ان لوگوں کو اس تناظر میں دیکھنا بہت ضروری ہے۔

ان لوگوں کے لئے پاکستان ایسے ہے، جیسے ہمارے لئے انگلینڈ۔ سوچنے والی بات ہے کہ، ان لوگوں کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آتا ہے؟ ہم نے تو پہاڑوں پر اگتا نہیں دیکھا۔ لاہور میں پراپرٹی کے سب سے زیادہ بولی لگانے والے، خریدنے والے یہ لوگ ہیں۔ کیا ہماری ایجنسیز یا متعلقہ ادارے ان کی طرف سے چشم پوشی سے کام لے ر ہے ہیں۔ سیانے کہتےہیں، وقت پر لگائی گئی ایک گرہ، آنے والےوقت پر سو گرہ لگانے سے بچاتی ہے۔ بحیثیت ادارے یا قوم ہم تب ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتےہیں، جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔

ان افغانیوں کو بھی جس طرح ہم پوری آزادی سے پنپنے دے رہے ہیں، اور معاشرے میں مزید بگاڑ پیدا کرنے میں معاون بنتے جا رہےہیں۔ آنے والی نسلوں کو اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔ اس میں ہم لوگوں کی بھی اپنی کوتاہی شامل ہے۔ ہماری انا آڑے آ جاتی ہے۔ وہ کام جو افغانی کر رہے ہیں، ہم اس کو اپنے شایانِ شان نہیں سمجھتے اور بیروز گاری کا رونا روتے رہتے ہیں۔ ان افغانیوں نے لوگوں کو سود پر قرضہ دینا شروع کیا ہوا ہے، بالکل اسی طرز پر جیسے ہندو بنیا کسی کو قرض دیتا تھا۔ اور یہ کام بہت خاموشی سے اندر ہی اندر چل رہا ہے۔

اگر لاہور کے بلدیاتی امیدواروں کی لسٹ دیکھیں، تو مقامی افراد کی بجائے زیادہ آپ کو پٹھان لوگ ہماری نمائندگی کرتے نظر آئیں گے۔ اس سے بڑی غلامانہ سوچ اور ہو نہیں سکتی کہ، ہم اپنے لوگوں کو نمائندہ بھی نہیں بناتے۔ اور اپنے فیصلے کروانے کے لئے ان لوگوں کے پاس جاتے ہیں۔ جب کشتی زیادہ وزن سے ڈوبنے لگے، تو سب سے پہلے وزن کم کرنے کا سوچا جاتا ہے اور جو غیر ضروری سامان ہوتا ہے، سب سے پہلےاس کو کشتی سے باہر نکال پھینک دیا جاتا ہے، تا کہ کشتی ڈوبنے سے بچ سکے۔ آج ہم اس سٹیج پر آ گئے ہیں۔ ان لوگوں کی مہمان نوازی کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے کہ، ہمیں اس بوجھ سے جتنی جلد ممکن ہو چھٹکاراپا لینا چاہئے۔

ہمیں افغانستان کے بارے میں ویزہ پالیسی کو سخت کرنا ہو گا۔ ان کی غیر ضروری آمد کو روکنا ہو گا۔ گندم، چینی، ڈالر کی ترسیل پر قابو پانا ہو گا۔ اپنے بارڈرز کو زیادہ محفوظ بنانا ہو گا۔ افغانستان سے کسٹم کے معاملات کا از سر نو جائزہ لینا ہو گا۔ سب سےبڑھ کر، ان کو پاکستان کے اندر پراپرٹی کی خریدوفروخت سے روکنا ہو گا۔ ملک کے قومی سلامتی کے اداروں کو اپنا رول ادا کرنا ہوگا۔ انڈیا کے خوف سے کہ، وہ افغانستان میں اپنے پاؤں نہ جما لے، اس کے بدلے میں انجانے میں ہم اپنے ملک کا اکانومی اوردوسرے معاملات میں اس سے کہیں زیادہ نقصان اٹھا رہے ہیں۔ ہمیں از سر نو اس پالیسی پر غور کرنا چاہئے، یہی وقت پر لگائی گئی ایک گرہ کافی ہو گی۔

Check Also

Safar Sarab

By Rehmat Aziz Khan