Tuesday, 30 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Afwo Darguzar

Afwo Darguzar

عفو در گزر

عفو کے معنی معاف کرنا، اللہ کی صفات میں سے ایک صفت جوسب سے بڑا معاف کرنے والا۔ بحیثیت ایک مسلمان ہمیں بھی عفودرگزر کا درس دیا گیا ہے۔ بہادر ہوتا ہےوہ شخص جو بدلہ لینے کی قوت رکھتے ہوئے بھی عفو درگزر سے کام لیتا ہے۔ اگر ہم اپنے موجودہ معاشرے پر نظر دوڑائیں تو ہم ایک بند گلی کی طرف بڑی تیزی سے جا رہے ہیں۔ شدت پسندی کا رحجان کم ہونے کی بجائے بڑھ رہاہے۔ جب معاشرے میں نا انصافی اور قانون کی گرفت کمزور پڑھ جائے۔ جب عدالتوں سے لوگوں کا اعتماد متزلزل ہو جائے، تب انارکی جنم لیتی ہے۔

میاں چنوں کا واقعہ ہو یا سانحہ سیالکوٹ، معاشرے کی بےچینی اور اس کے اندر پکنے والے لاوہ کی نشان دہی کرتاہے۔ ہم ایسے آتش فشاں کی چوٹی پر بیٹھے ہیں جو کبھی بھی پھٹ سکتا ہے۔ ٹائم بم کی ٹک ٹک صاف سنائی دے رہی ہے۔ آج اگرکوئی ایسی لیڈر شپ سامنے آ جائے جو یہ یقین دلا دے کہ اس نظام سے آپ کا استحصال ہو رہا ہے۔ بس چنگاری دکھانی مقصودہے۔ بظاہر اب نظر بھی یہی آ رہا ہے کہ اس ملک کی بہتری انقلاب سے آ سکتی ہے یا صدارتی نظام سے، کیونکہ موجودہ سسٹم معاشرے کے پسی ہوئی عوام کو ریلیف دینے میں یکسر ناکام ہو چکا ہے۔

اس معاشرے میں بے دلی پھیلانے میں جوڈیشری سسٹم اورکالے کوٹ پہنے وکلاء حضرات پیش پیش ہیں۔ جب طاقتور کے لئے اور قانون، غریب کے لئے اور قانون ہوتو اس معاشرے کو مہذب معاشرہ نہیں کہا جا سکتا۔ جب چھٹی کے دن عدالت لگ جائے، جب کسی کے گھر جا کر ضمانتیں دی جائیں۔ تو معاشرہ مہذب نہیں، جنگل بن جاتا ہے اور اس میں بسنے والے لوگ وحشی بن جاتے ہیں۔ یہ سب ایک دن میں نہیں ہوا، اس کے تانے بانے افغان جہادسے شروع ہوتے مردِ مومن، مردِ حق کے بوئے ہوئے بیج ہیں جو اب ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔

ایک خاص مفادکے لئے جس طرح جہاد کو پرموٹ کیا گیا، جس طرح فتوی ٰساز فیکڑیاں وجود میں لائیں گئیں، جیسے تعلیمی سلیبس میں تبدیلی لا کر بچوں کی برین واشنگ کی گئی، سب تاریخ ہے۔ ڈالر کے حصول کے لئے جس طرح مسجد، مدرسہ کے منبر کو استعمال کیا گیا۔ یہ آج اسی کاشاخسانہ ہے کہ لوگ خود ہی عدالت لگا کر مجرم کو سزا دینے لگ گئے ہیں۔ شریعت میں فاترا لعقل مجذوب شخص پر حد نہیں لگاتی جاسکتی ہے۔ پر اب ہم کو کون سمجھائے؟

بہت ہو گیا ابھی بھی وقت ہے کہ ہم قانون، انصاف میں تبدیلی لے کر آئے فتوی ٰسازفیکڑیوں پر روک تھام لگائیں، ایک ملکی سطح پر مفتیان کرام کا بورڈ ہو ادھر سے فتوے جاری کئے جائیں اور انہی فتووں کو قانونی حیثیت حاصل ہو۔ مسجد کے منبر سے عفو درگزر کا درس دیا جائے جو بندے اور اللہ کے درمیان معاملات ہوں وہ انہی کے درمیان رہنے چاہئں، جنت کے ٹکٹ ادھر سے دینے بند کئے جائیں۔ معاشرے کو بیلنس میں رکھنے کے لئے اور اس گھٹن کو کم کرنے کے لئےکھیلوں، فنون لطیفہ کی حوصلہ افزائی کی جائے تا کہ وحشی پن جیسے واقعات کی روک تھام ہو سکے۔

Check Also

Barkat Kisay Kehte Hain?

By Qamar Naqeeb Khan