Thursday, 16 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Bismiullah Kakar/
  4. Fauji Operations Aur Sabiqa Fata

Fauji Operations Aur Sabiqa Fata

فوجی آپریشنز اور سابقہ فاٹا

پاکستان کا موجودہ فوجی ڈھانچہ انگریز کے خدو خال کے عین مطابق بنا ہے البتہ نئے سیکورٹی ریاست بننے کے بعد ضروری ترامیم کرکے اس کو باضابطہ طور پر پاکستان آرمی کا نام دیا گیا تھا۔ ویسے سیکورٹی اسٹیٹ کی تاریخ بہت پیچیدہ اور طویل ہے مگر فوجی آپریشنز کا آغاز اپریل 1948 کو بلوچستان سے ہوتا ہوا مارچ 1971 کی "سرچ لائٹ آپریشن" ڈھاکہ کے ساتھ پاکستان کی دولخت ہونے تک کی ہے۔ فوجی آپریشنز کی داستان بہت طویل ہے مگر میں یہاں صرف سابقہ فاٹا کی آپریشنز کی بات کروں گا جو سابقہ فاٹا کے سات ایجنسیوں اور ملحقہ علاقوں میں ہوئے ہیں۔

ان آپریشنز کے اغراض ومقاصد کیا تھے؟ ان آپریشنز سے عوام کی جان ومال کوکتنا نقصان پہنچا؟ کتنے لوگ اس نام نہاد آپریشنز سے متاثر اور بے گھر ہوئے؟ 60 ہزار پختونوں کا قتل عام کس جرم کی پاداش میں ہوا تھا؟ ان آپریشنز کے عوض کتنی بیرونی امداد اور ڈالر پاکستان آئے؟ سب سے بڑا سوال کیا ان فوجی آپریشنز سے پاکستان میں دہشتگردی ختم ہوئی؟ ان تمام تر سوالوں کے جواب شاید ہمیں نہ ملیں لیکن تاریخ کے اوراق میں صرف ان آپریشنز کے خوبصورت نام رہیں گے!

میری معلومات کے مطابق 2001 سے لیکر 2023 تک صرف سابقہ فاٹا میں بارہ بڑے آپریشنز ہوئے ہیں اگر چھوٹے لیول کی کاروائیوں اس میں شامل کرکے ان کی تعداد سولہ، سترہ تک پہنچتی ہیں۔

فاٹا میں سب سے پہلا آپریشن 7 اکتوبر 2001 کو امریکی اتحادی افواج کے ساتھ Operation Enduring Freedom کے نام سے شروع کیا تھا۔ اس کے بعد 2002 کو Operation Al Mizan شمالی وزیرستان میں، 25 اکتوبر 2007 کو Rah-e-Haq سوات میں، 18 جنوری 2008 کو Operation Zalzala"سپنکئی" شمالی وزیرستان، 28 جون 2008 کو Operation Sirat-e-Mustaqeemخیبرایجنسی میں، 7 اگست 2008 کو Operation Sherdil باجوڑ ایجنسی میں، 26 اپریل 2009 Operation Black Thunderstorm دیر، سوات اور بونیر میں، مئی 2009 کو Operation Rah-e-Rast سوات میں، 19 جون 2009 کو Operation Rah-e- Nijat جنوبی وزیرستان میں، 23 مارچ 2010 کو Operation Khwakh Ba-De-Sham کرم اور اورکزئی ایجنسی میں، 15 جون 2014 کو Operation Zarb-e-Azab شمالی وزیرستان میں اور اکتوبر 2014 کو خیبر ایجنسی کا Operation Khyber 1 شامل ہیں۔

اتنے فوجی آپریشنز کے نام یاد کرنے سے بندہ جتنا تنگ ہوتا ہے تو ذرا تصور کیجئے ان لوگوں کا جن پر آپریشنز ہوئے ہیں؟ سوال بنتا ہے کہ اتنے آپریشنز کرنے کی آخر ضرورت کیوں پیش آئی؟ تو جواب، القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان، لشکر جھنگوی، لشکر طیبہ، جیش محمد اور جماعت الاحرار و دیگر دہشت گرد تنظیموں کا سپایا کرنا تھا۔ لیکن ان تمام تر آپریشنز کے باوجود پاکستان میں نہ صرف دہشتگردی بڑھی ہے بلکہ مذکورہ تنظیمیں اور مضبوط ہوچکی ہیں اور ساتھ ہی انہی آپریشنز زدہ علاقوں میں بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ اور دہشتگردی کے واقعات مزید بڑھ چکے ہیں۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اب ایک اور آپریشن کی تیاری ہو رہی ہے۔ جس میں وہی پرانے نغمے بجائیں گے اور وہی طریقہ واردات اپنایا جائے گا۔ اگر حقیقی معنوں میں ریاست دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سنجیدہ ہے تو سب سے پہلے گزشتہ آپریشنز کا آڈٹ کرایا جائے کہ اتنی وسیع کاروائیوں کے باوجود دہشتگردی کیوں ختم نہیں ہوئی؟ دہشتگرد تنظیموں کی حقیقی سہولت کاری کون کرتے ہیں؟ فوجی آپریشنز کے باوجود دہشتگرد کیسے دوبارہ فعال ہوئے ہیں؟ حالانکہ ہم تو اعلان کر چکے تھے کہ ہم نے دہشتگردی کی کمر توڑدی ہے! اب فیصلہ آپ لوگوں پر ہے کہ ہم نے فاٹا کو کیوں اور کیسے دہشت زدہ علاقہ بنایا ہے؟

Check Also

Kitaben Parhne Ke Mausam

By Sondas Jameel