Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Aurangzeb Nadir/
  4. Doobta Balochistan

Doobta Balochistan

ڈوبتا بلوچستان

مُحسن غریب لوگ بھی، تنکوں کا ڈھیر ہیں

ملبے میں دب گئے، کبھی پانی میں ‌ بہہ گئے

حالیہ بارشوں نے بلوچستان میں تباہی مچا دی ہے، ہر طرف صف ماتم بچھ گئی ہے اور لوگ پکار رہے ہیں کہ خدارا ہماری مدد کریں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ حکمران خواب خرگوش میں ہیں۔ حکمرانوں کی بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم پاکستان گزشتہ دنوں ایک طیارے میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا فضائی معائنہ کر رہے تھے۔ کیمرہ آن ہونے کے بعد وزیراعظم نے اداکاری شروع کر دی۔ صاف ظاہر ہے کہ انہیں عوام کی کوئی فکر نہیں۔ ایک طرف سیلابی ریلوں میں لوگوں کی لاشیں بہہ رہی ہیں اور دوسری طرف ہمارے نمائندے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔

بلوچستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر جنرل نصیر احمد ناصر کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے 34 اضلاع میں سے 27 طوفانی بارشوں اور سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ سیلاب کی صورتحال سے متعلق روزانہ کی بنیاد پر جاری کی جانی والی پی ڈی ایم اے کی رپورٹس کے مطابق جون کے وسط سے لے کر اب تک سیلاب سے مجموعی طور پر 196 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

پی ڈی ایم اے کے مطابق گزشتہ چند دنوں میں مزید ہزاروں مال مویشی کی ہلاکت کے بعد سیلاب سے اب تک ہلاک ہونے والے مال مویشی کی تعداد ایک لاکھ 7 ہزار 7 سو 37 ہو گئی ہے، اگرچہ پی ڈی ایم اے کی تازہ رپورٹس میں سیلاب سے مصدقہ متاثر ہونے والے گھروں کی تعداد 19 ہزار 7 سو 62 بتائی گئی ہے تاہم دو روز قبل بلوچستان کے مشیر برائے داخلہ و پی ڈی ایم اے میر ضیاءاللہ لانگو نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ متاثرہ گھروں کی تعداد 40 ہزار سے زائد ہے۔

دو لاکھ سے زائد ایکڑ اراضی پر فصلوں کو بھی نقصان پہنچا ہے جبکہ وزیر برائے پی ڈی ایم اے نے پریس کانفرنس میں یہ بتایا تھا کہ پانچ لاکھ ایکڑ اراضی پر فصلیں متاثر ہوئی ہیں۔ سرکاری املاک کے علاوہ متاثرہ اضلاع جو سڑکیں متاثر ہوئی ہیں ان کی مجموعی لمبائی 670 کلومیٹر ہے۔ بلوچستان میں بارش و سیلاب سے 574 سکولوں کی عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔ سیلاب کے دوران اسکولز کی عمارتیں تباہ ہونے سے 78 ہزار 9 سو 10 طلباء و طالبات کی حاضری متاثر ہوئی ہے جبکہ 1121 کلاس رومز، 24 امتحانی ہال اور 188 چار دیواریوں کو نقصان پہنچا ہے۔

ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق ملک بھر میں سیلاب سے 571 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ ہر 10 میں سے تین ہلاکتیں بلوچستان میں ہوئیں جو کہ کسی بھی صوبے میں سب سے بڑی تعداد ہے۔ صرف لسبیلہ ضلع میں 2000 ایکڑ سے زیادہ فصلیں اور کٹائی کے لیے تیار پودے متاثر ہو چکے ہیں۔ فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔ ضلع کیچ اور پنچگور پاکستان کے بڑے کھجور پیدا کرنے والے ضلع ہیں لیکن حالیہ بارشوں سے کھجور کی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں۔ یہاں کے مکینوں کا ذریعہ معاش صدیوں سے کھجور کی فصل سے وابستہ ہے۔ زمینداروں کو اربوں روپے کے نقصان کا سامنا ہے۔

اس وقت بلوچستان میں قیامت کی کیفیت ہے۔ ہزاروں کی تعدار میں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، لوگ کھلے آسمان تلے زندگیاں بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ خورد و نوش کی اشیاء کا شدید فقدان ہے۔ مال مویشی اور کاروبار تباہ ہو چکے ہیں۔ معمولاتِ زندگی بری طرح متاثر ہو چکا ہے۔ لوگ فریاد کر رہے ہیں کہ ہماری مدد کی جائے۔ اب تک متعلقہ حکام اور حکومت کی جانب سے کوئی تسلی بخش اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے۔

کچھ ایسے مناظر بھی دیکھنے کو ملے جن کو دیکھ کر دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ بچے سیلابی ریلوں میں بہہ رہے ہیں اور زمین میں دبے لاشوں کو نکالنے کے منظر ناقابل برداشت ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ایک طرف بلوچستان میں موت کا رقص جاری ہے جبکہ دوسری طرف پاکستان کے درالحکومت میں آزادی کا جشن بڑے جوش و خروش سے منایا گیا۔ افسوس کا مقام ہے کہ پورا بلوچستان ڈوب چکا ہے اور یہ جشن منا رہے ہیں۔

اگرچہ پاکستان میں وفاقی سطح پر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) اور صوبائی سطح پر پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز (PDMAs) جیسے ادارہ جاتی ڈھانچے موجود ہیں، تاہم آفات سے نمٹنے کے لیے تیاری کبھی بھی ترجیح نہیں رہی۔ سالانہ ان کا بجٹ اربوں روپے ہیں لیکن کارگردگی صفر ہے۔ ان کی لاپرواہی کے سبب اس وقت پورا بلوچستان ڈوب چکا ہے۔

حکومت وقت کو لوگوں کے درد کو محسوس کرنا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے لیکن افسوس یہاں سوتیلی ماں سے بدتر سلوک کیا جا رہا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کو لوگوں کی مشکلات کو آسان بنانے کے لئے اقدامات اور فوری امدادی کاروائیاں کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ متعلقہ اداروں کو ہر وقت تیار رہنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹا جا سکے۔

Check Also

Wazir e Aala Punjab Aur Police Uniform

By Prof. Riffat Mazhar