1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asim Anwar/
  4. Na Ehli Hi Asal Masla Hai

Na Ehli Hi Asal Masla Hai

نااہلی ہی اصل مسئلہ ہے

پاکستان کی معروف کاروباری شخصیت میاں منشاء ایک دن کہہ رہے تھے۔ کہ پاکستان کا مسئلہ کرپشن نہیں نااہلی ہے۔ اُس دن تو میں اس بات کو اچھی طرح سے نہیں سمجھ پایا تھا۔ مگر آج مجھے احساس ہے کہ میاں منشاء نے جوکہا تھا ٹھیک ہی کہا تھا۔ جب میں ملک کے سیاسی اور معاشی صورتحال کو دیکھتا ہوں۔ اور پھر ان سیاست دانوں کی غیر ذمہ دارانہ رویوں کو تو مجھے احساس ہوتا ہیں۔ کہ میاں منشاء نے یہ بات بڑی سوچ سمجھ کہی تھی۔

کیونکہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد جس طرح کا سیاسی عدم استحکام اس ملک میں ہے اور جس قسم کی معاشی صورتحال سے ہم لوگ گزر رہے ہیں۔ اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ احسن اقبال نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ کرپشن توپوری دنیا میں ہوتی ہیں۔ اصل مسئلہ گورننس کا ہے۔ کہ ملک کو کیسے چلایا جائے۔ لیکن یہاں تو ملک سے زیادہ سیاست دانوں کو کرسی کی فکر کھائی جارہی ہیں۔

آج سے سات مہینے پہلے ملک میں تاریخ کا بدترین سیلاب آیا۔ 3 کروڑ لوگ اس سیلاب سے متاثر ہوئے۔ لاکھوں گھر پانی بہا لے گیا۔ لاکھوں سیلاب متاثرین آج بھی اس سردی میں بے سروسامانی کے حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ عالمی اداروں نے مزید ہزاروں افراد کے سردی کے سبب اموات کا خدشہ ظاہر کیا ہیں۔ لیکن حکومت پاکستان آج تک ان کی کوئی خاطر خوا امداد نہیں کرسکا۔ میڈیا بھی اُن دنوں جب شہباز گل کی گرفتاری سے فارغ ہوئی تو سیلاب کو تھوڑابہت کوریج دیا۔ مگر جلد ہی وہ بھی بھول گئے کہ اس میں کچھ ہوا تھا۔ اور پھر اگلے تین مہینے مسلسل آرمی چیف کےتعیناتی کے پیچھے پڑے ہوئے تھے۔ لیکن اس اِس مسلئے کو نا حکومت نے توجہ دی اور ناہی میڈیا نے۔

اس سال یعنی 2022 میں ساڑھے سات لاکھ نوجوان پاکستان کو چھوڑ کر بیرون ممالک میں چلے گئے۔ پچھلے سال جب طالبان نے افغانستان پر قبضہ کرلیا تو لاکھوں لوگ افغانستان کو چھوڑ کر باہر جارہے تھے۔ اس دن ہم افغانستان کے مستقبل کےلئے رو رہے تھے اور یہ سوچ رہے تھے کہ اگر یہ پڑھے لکھے لوگ افغانستان کو چھوڑ کر چلے گئے۔ توافغانستان کے مستقبل کا کیا ہوگا۔ مگر آج ہماری وہ حالت ہوگئی ہیں۔ جس کے بھی عمر اٹھارہ سال تک پہنچتی ہے۔ اس کا پاسپورٹ بنوا کر باہر بھجوا دیا جاتا ہیں۔ کسی کو کوئی فکر نہیں ہے کہ اگر ایسا چلتا رہا تو اس ملک کا کیاہوگا۔ یہ ملک تو مزید مسائل کا گڑھ بنتا چلا جائے گا۔

ملک کی معاشی صورتحال کو سامنے رکھیں اور فیصلہ کریں کوئی ملک کوئی مالیاتی ادارہ ہمیں قرض دینے کو تیارنہیں ہے قرضوں میں اتنا ڈوب گئے ہیں کہ کسی کو بھی نہیں پتہ کہ ہم اس دلدل سے کیسے نکلیں گے۔ اوپر سے ہم اس امید پر بیٹھے ہیں کہ مزید قرض کیسے حاصل کیا جائے۔ دنیا میں اب ہماری کوئی عزت باقی نہیں رہی ہمارا وزیرخارجہ چاہئے کتنے ممالک کا ہی دورے کیوں نا کریں۔ اور کتنی ہی جارحانہ بیانات کیوں نا دیں۔ یہ اب ایک تسلیم شدہ حقیقت ہیں کہ جس کی معاشی حیثیت نا ہو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہیں۔

یہ تھے پاکستان کے موجودہ بڑے مسائل میں سے تین مسائل جو فوری حل طلب ہے۔ مگر کون اس کو حل کریگا؟ حکومت! حکومت؟ حکومت کی تو ترجیحات ہی کچھ اور ہیں ان کو تو شاید پتہ بھی نہیں کہ پاکستان کو کچھ اس قسم کے مسائل درپیش ہیں۔ آئیں چلتے ہیں اور معلوم کرتے ہے کہ حکومت کیا کررہی ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب ہر طرف سے دیوالیہ دیوالیہ ہونے کی آوازیں آرہی ہو۔

جب سے تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں پیدا ہونے والا حکومت اقتدار میں آئی ہیں۔ کوئی کارنامہ کوئی کامیابی ہم نےآج تک نہیں دیکھی۔ اب یہاں مجھے ذاتی طور پر مسائل کے حل پر توجہ دینے سے زیادہ ان کے ترجیحات سے ہیں۔ سیلاب آیا تو عمران خان اپنے جلسے کررہے تھے۔ لاکھ سمجھانے کے بعد انہوں نے جلسوں سے تھوڑا بریک لیا۔ اور تین ٹیلی تھوک بھی کرائی۔ مگر انتہائی عوامی پریشر میں آکر عمران خان نے یہ فیصلہ کیا تھا۔ اس طرح اگر حکومت کی بات کریں۔ تو انہوں نے تو سیلاب متاثرین کےلئے فضائی دوروں سے زیادہ کچھ نہیں کیا ہیں۔ وزیر اعظم اور چاروں صوبوں کے وزیر اعلی صرف فضائی دوریں کرتے دیکھائی دیں تھے۔ باقی گراونڈ پر کام کچھ نہیں تھا اور نا ہے۔

آج کے صورتحال کو سامنے رکھیں تو آپ کو پورا آئیڈیا ہوجائے گا کہ یہ کتنے اہل ہے اور ان کو کتنی فکر ہے اس ملک کے ایک پنجاب کےلئے پورے ملک کے سیاست دان لڑ رہے ہیں۔ کسی کو کوئی دوستی یا دشمنی کا کا کوئی لحاظ نہیں ہرکوئی بس اسی فکر میں ہے کہ اس موقع سے کیسے فائدہ حاصل کیا جائے۔ زرداری، شہباز اور چوہدری شجاعت درجنوں دفعہ ملے ہیں۔ مگر جب بات معیشت کی آتی ہے تو کوئی سامنے نہیں آتا اسی طرح پرویز الہی اور عمران خان تقریباً ہر روز ملتے ہیں۔ مگر عمران خان کے پاس خیبر پختونخواہ کےلئے کوئی ٹائم نہیں ہے۔ پختونخواہ قرضوں میں ڈوب چکا ہے مگر ان کو جیسے کوئی فکر ہی نہیں ہے کہ صوبےاس کا کیا ہوگا۔

کالم کی دُم!

حل یہ ہے کہ سارے سیاست دان اقتدار کے لڑائی کے بجائے ملک کے مسائل کےلئے اکٹھے ہوجائے۔ اور اس کا حل تلاش کریں۔ آزادی کے پچھتر سال ہوگئے مگر ایسا لگتا ہے کہ ہم آگے بڑھنے کے بجائے مزید پیچھے کے طرف جارہے ہیں اورستم یہ ہے کہ کسی کو کوئی پروا بھی نہیں ہیں۔ اقتدار کے لڑائی کےلئے دوست، دشمن اور دشمن دوست بننے کو تیارہیں۔ مگر میثاق معیشت کےلئے ایک ساتھ بیٹھنا ہر کوئی اپنی توہین سمجھتا ہے۔ جب تک یہ لوگ ذاتی مفادات کو بھلاکر قومی مفادات پر نہیں بیٹھیں گے۔ مسائل حل ہونے کے بجائے مزید گھمبیر ہوتے چلے جائے گی۔

Check Also

Jhootay Roop Ke Darshan Se Bin Bas Tak

By Amir Khakwani