Saturday, 11 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asim Anwar/
  4. Maryam Nawaz Ka Siasi Mustaqbil

Maryam Nawaz Ka Siasi Mustaqbil

مریم نواز کا سیاسی مستقبل

آج سے پانچ سال پہلے ہر شخص اس بارے میں اپنی ایک رائے رکھتا تھا کہ مریم نواز اور بلاول بھٹو میں کس کا سیاسی مستقبل روشن ہوگا۔ میرے جیسے بہت سارے لوگ مریم نواز کی سیاست کے روشن ہونے کے بارے میں دلائل دیتے تھے۔ یہ سوال آج پانچ سال گزرنے کے بعد بھی ایک معمہ ہی ہے اور حالات آج تک دلائل کے روشنی میں یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ کس کا سیاسی مستقبل روشن ہوگا۔ دونوں پاکستان کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے وارث سمجھے جاتے ہیں۔

بلاول کو پارٹی میں مرکزی عہدہ ملتے وقت کوئی خاص مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا اور اس کی بنیادی وجہ شاید ذوالفقار علی بھٹو جیسے عوامی لیڈر کا نواسہ ہونا اور بےنظیر جیسی صنف آہن کا بیٹا ہونا ہے۔ اسیلئے پارٹی میں کسی نے اس کی کوئی خاص مخالفت نہیں کی۔ مگر مریم نواز اس حوالے سے تھوڑی بدقسمت ثابت ہوئی۔ جیسے ہی پارٹی امور میں سرگرم ہوئی تو چوہدری نثار ساتھ چھوڑ گئے اور اب شاہد حاقان عباسی کے بھی ارادےکچھ ٹھیک نہیں لگ رہے۔

خواجہ سعد رفیق بھی مایوس دیکھائی دیتے ہیں۔ لیکن خیر میرے خیال میں اس سے اُن کےسیاسی سفر پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔ کیونکہ پارٹی کے تمام سیاسی سرگرمیوں میں اسے اپنے والد نواز شریف کی حمایت حاصل ہے۔ خیر یہ تو مریم اور بلاول کے سیاسی سفر کا ایک موازنہ تھا کہ کیسے دونوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا اور کس کو کتنی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اب بات کرتے ہیں مریم کے سیاسی مستقبل کی لیکن اس سے پہلے اس کو ان کے سیاسی ماضی سے جوڑتے ہیں۔

جب نواز شریف کو 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا تو نواز شریف کو لگا کہ اس کے پیچھے غیر سیاسی قوتیں کار فرما ہیں اور نااہلی کو نواز شریف نے ایک منتخب وزیراعظم کے خلاف سازش قرار دیا اور یوں نواز شریف نے "ووٹ کو عزت دو" کا نعرہ بلند کیا۔ اور نواز شریف نے اس کو عوامی جلسے جلوسوں میں بلند کرنا شروع کیا۔ اور یہاں سے مریم نواز کی سیاست میں ڈائریکٹ انٹری ہوتی ہے۔ اس سے پہلے بھی مریم نواز مختلف سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھی مگر اتنی ایکٹیو دیکھائی نہیں دیتی تھی۔

مریم نواز نے بھی اپنے والد کا نعرہ بلند کیا اور مزاحمتی سیاست کو آغاز کیا۔ یہاں سے مریم نواز کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوا۔ جیل گئی، پیشیاں بھگتی، مزاحمت کا نعرہ بلند کیا، اور عورت ہونے کے سبب نفسیاتی دباؤ بھی برداشت کیا۔ لیکن اس کا سیاسی سفر کسی نہ کسی طریقے سے جاری رہا۔ مزاحمت کی سیاست میں کبھی اس کا ٹوئیٹر اکاونٹ ایکٹیو ہو جاتا تو کبھی خاموش خیر یہ ایک الگ کہانی ہے۔ معاملہ چلتے چلتے تحریک عدم اعتماد تک آیا اور شہباز شریف وزیراعظم بن گئے۔

مریم نواز کو لاہور ہائیکورٹ نے اپنا پاسپورٹ دے دیا اور وہ اپنے والد نواز شریف کے پاس لندن چلی گئی۔ وہاں چار مہینے رہی مگر جیسے ہی انہیں اندازہ ہوا کہ ہماری حکومت انتہائی غیر مقبول ہوتی جا رہی ہے تو مریم نے لندن سے واپس آ کر اپنی مزاحمتی سیاست پھر سے شروع کی اور ریاستی اداروں سے محاظ آرائی شروع کی۔ اب یہ تو طے ہیں کہ مزاحمتی سیاست مریم نواز کا خاصہ ہے اور جب بھی اسے اپنی سیاست کی کشتی ڈوبتی نظر آتی ہے تو وہ اس کو اپنا سہارا سمجھ کر پکڑ لیتی ہیں۔ آئیں اب اسی کے تناظر میں مریم نواز کے سیاسی مستقبل کو تلاش کرتے ہیں۔

مریم نواز کا سیاسی مستقبل کچھ اُن کے اپنے والد کے ہاتھ میں ہے اور کچھ ان کی پارٹی کے رہنماؤں کے، کیونکہ مریم نواز آج تک جو بھی کہتی آئی ہیں یہ اصل میں ان کے والد نواز شریف کی سوچ ہے اور یہ اپنے والد کے سوچ کو لے کر آگے چل رہی ہیں۔ مستقبل میں بھی ان کی سارے سرگرمیاں نواز شریف کی مرضی سے ہی طے ہوں گی۔ لیکن مریم نواز کے لئے سب سے بڑا چیلنج شہباز شریف اور حمزہ شہباز ہے کیونکہ پارٹی کے لئے ان کی بھی بہت ساری قربانیاں ہیں۔

اور وہ کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ مریم بغیر کسی کی شرکت کے سارے فیصلے کرتی رہے اور وہ بیٹھ کے تماشہ دیکھتے رہیں اس کے علاوہ مریم کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ اس کی اپنی طرز سیاست میں ہے۔ اگر وہ اس طرح کی مزاحمت کی سیاست کرتی رہی اور بلاول مفاہمت کا تو قوی امکان ہے کہ وہ ملکی سیاست پر اپنی دھاک بیٹھا دیگا اور مریم خود کو انقلابی سمجھتے سمجھتے بہت پیچھے رہ جائیگی۔

Check Also

Behan Aur Eid

By Mubashir Aziz