1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asim Anwar/
  4. Main Jeena Chahta Hoon

Main Jeena Chahta Hoon

میں جینا چاہتا ہو

میں جینا چاہتا ہو، میں مرنا نہیں چاہتا، میں اس لئے جینا چاہتا ہو کہ میرے چھوٹے چھوٹے خواب ہیں۔ جس کی میں نے تعبیر پانا ہے۔ میں نے اس لئے جینا ہے، کہ میرے کچھ خیالات ہیں۔ جسے میں نے حقیقت کا روپ دینا ہے۔ یہ ایک نوجوان کی آخری باتیں ہیں۔ جو اس کے ذہن میں اس وقت آئی، جب اسے یہ یقین ہوگیا کہ اگلے چند لمحوں میں اس کی موت واقع ہونے والی ہے۔

اس کی روح اس کا ساتھ چھوڑنے والی ہے۔ بلکے حقیقت میں تو وہ روح ہی اس کا اصل ہے، ہمیں یوں کہنا چاہئے۔ کہ اس کا اپنا جسم اس کا پرایا ہونے والا ہے۔ یہ ایک ناقابل تصور لمحہ ہوتا ہے۔ جب آپ اپنےاس جسم کے لئے غیر ہونے والا ہو۔ جس کے آرام، آسائش اور سکون کے لئے آپ نے ہر جائز اور ناجائز کام کیا ہو۔ یہ اتنا مشکل وقت ہوتا ہے۔ جسکے خوف سے اُردو کے مشہور شاعر مرزا اسد اللہ خان غالبؔ بھی ڈرتے تھے، اس لئے تو انہوں نےکہا تھا کہ۔

موت کا ایک دن معین ہے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتا

شاید غالب بھی موت سے بہت ڈرتا تھا۔ تبھی تو اس نے یہ شعر کہا ہے، مگر ہم جسے کم عمر لوگ جو ابھی زندگی کے اتار چڑھاؤ سے ابھی اچھے سے واقف بھی نہیں بس زندگی کو اپنے خواہشات کے حصول کی ایک اماجگاہ سمجھ کر جی رہے ہوتے ہیں، ان کے لئے موت کسی ڈراونے خواب سے کم نہیں، موت کے وقت انسان کے ذہن میں کیا چل رہا ہوتا ہے، یہ تو وہ اور اس کا خدا جانتا ہے۔

لیکن ایک تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے، کہ جب انسان کو اچانک موت آتی ہے۔ تو وہ زندگی میں ضروری سمجھے جانے والے چیزوں کو بھول جاتا ہے۔ جیسے قرض ادا کرنا، بجلی کا بل جمع کرنا اور اسکول کے امتحانات کی ٹینشن، جو کبھی کبھی راتوں کے نیند کو حرام کرتی ہے۔ مرتے وقت انسان وہ سب کچھ بھول جاتا ہے۔ جو اس کے لئے زندگی میں اہمیت رکھتا تھا۔ انسان کو دوسروں کی اچھائی اور اپنی بُرائی یاد آتی ہے۔

کتنا عجیب ہے نا، ہمیں زندگی بھر اپنی اچھائی اور دوسروں کی برائی یاد رہتی ہے۔ لیکن جیسے ہی موت سامنے آتی ہے۔ سب کچھالٹا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اپنا بُرا سلوک اور دوسروں کی اچھائی آنکھوں کے سامنے آنا شروع ہو جاتی ہے۔ موت ایک ایسی لائن ہے کہ جس کو جب کوئی ایک دفعہ کراس کرتا ہے۔ چاہیں اپنی مرضی سے ہو یا خدا کی مرضی سے (اپنی مرضی سے مراد خودکشی ہے)پھر کبھی اس سے واپس نہیں ہو سکتا۔

جس کے لئے وہ کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار ہو، اس کے واپسی پھر کبھی نہیں ہو سکتی۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک نوجوان جس کا نا کسی کے ساتھ اچھائی کا رشتہ ہو اور نا برائی کا اور نا کوئی اس سے کسیایسی قسم کی کاموں کی توقع رکھتا ہو۔ اس کے سامنے جب موت نے اپنا وجود دیکھایا ہوگا کہ میں آیا ہو، آپ کے پاس آپ کولے جانے کے لئے ایک ایسی دنیا جہاں جانا تو سب نے ہیں، لیکن وہاں سے پھر کبھی کسی کی واپسی نہیں ہوئی۔

مجھے نہیں لگتا کہ کوئی تحقیق ایک نوجوان ذہین کا اندازہ کبھی لگا پائے گا کہ مرتے وقت اس کے ذہن میں کیا چل رہا ہوتا ہے۔ میرے خیال سے ایک نوجوان کو جب موت آتی ہے تو اس کے ذہن میں اس کا اپنے مستقبل کے لئے کی گئی منصوبہ بندی اور وہ خواب جس کے امید کے سہارے وہ دنیا کے مشکلات سے دور اپنی زندگی ہنسی زندگی گزار رہا ہوتا ہیں، وہی سامنے آتا ہوگا۔

اب آپ کہیں گے کہ یہ تو تم نے بڑی خود غرضی کی بات کی کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ بندہ اپنے ماں باپ کو اس اہم اور خوفناک لمحے پر بھول جائے۔ میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں، لیکن ہم اپنے ماں باپ کو تبھی یاد کرتے ہیں جب ہم کسی تکلیف میں ہوتے ہیں۔ جبکہ موت تکلیف دہ نہیں ایک خوف ناک سفر ہوتا ہیں۔ ہاں البتہ موت کا سفر تکلیف دہ ضرور ہوتا ہے۔

جس سبب انسان مر رہا ہوتا ہے، وہ تکلیف دہ ہوسکتا ہے۔ مرتے وقت انسان صرف اپنی ذات ہاں فقط اپنےذات کا سوچتا ہیں۔ اور ہر اس شے کے بارے میں جو اسے اس تکلیف سے نکلنے میں مدد دیے سکے۔ اور وہ اللہ کے ذاتکے سوا کوئی نہیں ہوسکتا۔ اب آپ اتفاق کریں یا نا کریں یہ آپ پر منحصر ہے۔ اصل میں ہم بات کر رہے تھے، ایک ایسے نوجوان کی جو اپنی زندگی ایک نا ختم ہونے والا یا بہت بڑا خزانہ سمجھ کر جی رہا تھا۔

لیکن یکدم ڈاکٹرز نے انہیں بتایا کہ آپ کے پاس صرف دو گھنٹے ہیں۔ اس کے بعد آپ اس دنیا کو الوداع کرنے والے ہیں۔ اس پر اُن کا ممکنہ ریلشن کیا ہوسکتا ہے۔ اور اس کے ذہن میں کیا چلنے لگا۔ میرے خیال سے تو یہ ہر انسان کاریکشن الگ الگ ہو سکتا ہے۔ کسی کو موت کے بعد کی تنہائی یاد آتی ہوگی۔ کوئی اپنے دوستوں کے محفلوں کو یاد کر رہا ہوگا۔

کوئی اپنے ماں باپ کے بارے میں سوچتا ہوگا۔ اور کوئی اپنے ان خوابوں کے بارے میں جس کے امید پر وہ اپنی زندگی کے اتار چھڑاؤ کو ایک امتحان سمجھ کر جی رہا تھا۔ لیکن غالب امکان یہی ہے کہ جیسے ہی اسے پتہ چلا ہو، کہ میں مرنے والا ہو اس کی ماضی ایک فلم کے طرح اس کے آنکھوں کے سامنے چلنے لگی ہوگئی۔ اور اسی لمحے وہ اپنے دوست، رشتہ دار اور گھروالوں کے ممکنہ ریکشن کے بارے میں سوچنا شروع کردیگا۔

اور اسی دوران اسے اپنا مستقبل بھی یاد آیا ہوگا، کہ میں نے اپنے لیے کیا کیا سوچ رکھا تھا، اور یہ میرے ساتھ کیا ہوگیا۔ میں اس لیے یہاں پر بار بار مستقبل کا ذکر کررہا ہوں، کیونکہ ایک نئے ذہن میں اپنے اچھے مستقبل، دنیا پر راج کرنے اور وہ لوگ جن سے وہ نفرت کرتا ہے۔ ان سے چُن چُن کر بدلہ لینے جیسے خیالات غالب رہتے ہیں۔ چلیں اب اس خشک اور پیچیدہ فلسفیانہ گفتگو کو یہی پر ختم کرتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ کچھ زیادہ ہی ہوگیا۔

کالم کی دُم۔

اِس کا کُل یہی یہ ہے کہ نوجوان کو اپنے موت کا پتہ چلتا ہے۔ تو وہ عام آدمی کے مقابلے میں وہ کیا سوچتا ہے۔ بڑے عمرکے آدمی کو اپنے بیوی بچوں کی فکر ہوتی ہے۔ اور اس سبب کی جس سے اس کے موت واقع ہونے والا ہوتی ہے۔ اس کی تکلیف جیسے ایکسیڈنٹ یا ہارٹ اٹیک وغیرہ جب کے اس مقابلے میں ایک نوجوان موت کی موت کیسا ہوتی ہے۔

تو اسکے لئے بہت مشکل ہوتی ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا کے میں اس دنیا کو خالی ہاتھ چھوڑ کے جارہا ہو۔ جس کے لئے میں نے بہت سارے پلاننگز کیں تھی۔ لوگ کہتے ہیں کہ سب سے بدتر موت مسافر کی ہوتی ہے۔ لیکن میرے خیال میں جوانی کی موت کا کوئی مقابلہ نہیں۔ اور ناہی اس لمحے کے جس لمحے اس کے سانس نکل رہی ہوتی ہیں۔

Check Also

Mughalitistan Aur Imran Khan, Islami Touch Nahi, Islami Zavia (12)

By Basham Bachani