Saturday, 11 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asim Anwar/
  4. Imran Khan Par Etemad Kyun?

Imran Khan Par Etemad Kyun?

عمران خان پر اعتماد کیوں؟

شاید ہی سال 2012 کے بعد ایسا کوئی دن گزرا ہو کہ عمران خان مین سٹریم میڈیا پر نظر نہ آیا ہو اور کوئی ایسا وقت نہیں گزرا جب وہ کسی تنازعہ کا شکار نہ ہو۔ عمران خان پر ہمیشہ جتنے بھی الزامات لگے ہیں ان میں اکثریت ذاتی نوعیت کے ہیں۔ جیسے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح پر لگے تھے اور جیسے سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو پر لگے تھے۔

اس کی سب سے بڑی وجہ شاید ان کی پروفیشنل لائف میں کوئی بڑی خامی کا نہ ہونا ہے۔ جس سے ان کے مخالفین کھل کر ان کو زچ کر سکے۔ عمران خان کی ذات سے لاکھ اختلاف ہی صحیح مگر جو شہرت ان کو کرکٹ کھیلتے ہوئے ملی اور جو آج تک برقرار ہے۔ شاید ہی اتنی شہرت آج تک کسی پاکستانی کے حصے میں آئی ہو۔

عمران خان کے سیاسی سفر میں بہت ساری خامیاں ہو سکتی انہوں نے الیکشن سے پہلے بہت ساری باتیں کیں تھیں اور بہت سارے وعدے مگر شاید ہی اس نے ان میں سے ایک بھی وعدہ پورا کر دیکھایا ہو۔ لیکن پھر بھی لوگ ان پر اعتماد کرتے ہیں اور لوگ ان کی ہر بات کا اعتبار کرتے ہیں۔ ایسی کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ ملک کی ساری سیاسی جماعتیں حکومت میں اور عمران خان اپوزیشن میں لیکن پھر بھی ان سے حکومت نہیں سنبھالی جارہی ہے اور عمران خان ہر موڑ پر انہیں ٹف ٹائم دیئے کھڑا ہوتا ہے۔

میرے خیال سے اس کی تین بڑی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ عمران خان کی پرکشش شخصیت اور کمال کی فنِ خطابت ہے۔ کسی بھی بڑے سیاسی لیڈر کی ایک بڑی خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنی خطابت اور پرکشش شخصیت سے لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑے رکھتا ہے۔ اور عمران خان کو اس فن میں انتہاء کی مہارت حاصل ہے۔ وہ عوام کی نفسیات سے اچھے سے واقف ہے کہ ان کو کیسے اپنے ساتھ لیکر چلنا ہے۔

سال 1996ء کو جب اس نے اپنی پارٹی کی بنیاد رکھی تو اسے ٹھیک سے بات کرنا بھی نہیں آتی تھی۔ لیکن آج وہ گھنٹوں تقریر کرتا ہے اور لوگ اسے اتنے ہی ذوق سے سنتے ہیں جتنی وہ لمبی تقریر کرتا ہے۔ عمران خان کی کامیابی کی دوسری بڑی وجہ ان کے نکمے مخالفین ہیں عمران خان اس لحاظ سے بہت خوش قسمت ہے کہ خدا نے انہیں ایسے مخالفین دیئے ہیں جو عمران خان کے لئے کسی مصیبت کو کھڑی کرنے کے بجائے الٹا انہیں موقع بہ موقع اپنے کرتوت کی وجہ سے فائدہ پہنچا رہے ہیں۔

جس بدترین دور سے پاکستان ان سیاست دانوں کے ہوتے ہوئے گزرا ہے اس کے بعد سے لوگ عمران خان کو ایک مسیحا اور فرشتے سے کم ماننے پر تیار ہی نہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج عمران خان جو بھی کہتا ہے لوگ اس پر یقین کرنے کے لئے پہلے سے تیار ہوتے ہیں۔ عمران خان ایک طرح سے لوگوں کے لئے سورس آف انفارمیشن اور پلیس آف ویریفائنگ انفارمیشن بن چکا ہے۔

اُن کے چاہنے والوں کا یہ خیال ہے کہ عمران خان کے آنے سے پہلے تو ہمیں کسی چیز کا پتہ ہی نہیں تھا۔ یہ تو عمران خان نے آ کر ہم پر احسان کر دیا اور اس اندھیر نگری میں شمع روشن کی۔ عمران خان کی کامیابی کی تیسری وجہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر مضبوط گرفت ہے، خصوصاً سوشل میڈیا پر۔ سوشل میڈیا پر ایسے ہزاروں اکاؤنٹس موجود ہیں جو عمران خان کے خلاف ہر بیان کو جھوٹ ثابت کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔

اس کے ساتھ ہی جس شخص کے طرف سے عمران خان پر الزام لگتا ہے یہ لوگ اس شخص پر ذاتی حملے کرنا شروع کرتے ہیں۔ کوئی بھی شخص ہو خواہ وہ سیاست دان ہو یا کوئی صحافی یہ لوگ کسی کا بھی لحاظ کیے بغیر ان پر حملے کرنا شروع کرتے ہیں اور اس کی تازہ مثال شاہ زیب خانزادہ ہے۔ جب شاہ زیب خانزادہ نے توشہ خانہ کی گھڑی کے خریدار کو سامنے لایا تھا اس کی ذاتی زندگی پر ایسے تابڑ توڑ حملےکیے گئے کہ شاہ زیب کو اگلی دفعہ کے لئے محتاط کیا گیا اور اسی طرح اب بہت سارے لوگ اپنے عزت بچانے کی خاطر عمران خان سے پنگا نہیں لیتے۔

یہ تین ایسی بڑی خصوصیات ہیں جو عمران خان کو اپنے وقت کا سب سے بڑا صادق اور امین ثابت کرتی ہے اور بعض اوقات بڑے سلجھے اور سمجھدار لوگ بھی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہمارے پاس عمران خان کے سوا اور کوئی آپشن ہی نہیں ہے۔ ان کے چاہنے والوں کی ایک بڑی تعداد سمندر پار پاکستانیوں کی بھی ہے۔ جو اس وجہ سے عمران خان کو سپورٹ کرتے ہیں کہ وہ ایک پرکشش اور کسی بھی بڑے عیب سے پاک سیاست دان ہیں۔ جو عمران خان کے لئےکسی مثبت پوائنٹ سے کم نہیں ہے۔

کالم کی دُم۔

عزیزان من میں یہ تو نہیں کہتا کہ عمران خان ایک بڑا سیاست دان نہیں ہے۔ کیونکہ دنیا کے بڑے بڑے سیاسی رہنماء انکی شخصیت اور سیاسی سوچ کے گرویدہ ہیں۔ مگر جس طرح ان کے کارکنان اس کو سپورٹ کرتے ہیں وہ واقعی میں باعث حیرت ہیں کہ وہ جس طرح سے عمران خان کی بات کی تشریح کرتے ہیں۔ اور ان کے خلاف ہر الزام کو جھوٹا ثابت کرتے ہیں۔ وہ بھی کسی ڈکٹیر سے کم نہیں ایسا ہم اکثر آمریت میں دیکھتے ہیں۔ جمہوری حکومتوں میں اپنے لیڈران سے پوچھا جاتا ہے نہ کہ ان کی طرف سے وضاحتیں دی جاتی ہیں۔

Check Also

Apni Zindagi Khud Jiyen

By Rauf Klasra