1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asim Anwar/
  4. Imran Khan Ki Faryad Aur Chief Justice Ki Berukhi

Imran Khan Ki Faryad Aur Chief Justice Ki Berukhi

عمران خان کی فریاد اور چیف جسٹس کی بے رُخی

جب قاضی فائز عیسی چیف جسٹس آف پاکستان بنے تو سب کو اُن سے بڑی امیدیں تھیں۔ اُن کے حامیوں کے ساتھ ساتھ اُن کے مخالفیں بھی اُن کی اصول پرستی کی وجہ سے ان سے بہت پُرامید تھے کہ وہ سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے دور میں دو دھڑوں میں تقسیم سپریم کورٹ آف پاکستان کو پھر سے جوڑ ینگے۔ قانون اور انصاف پر مبنی فیصلے کرینگے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب وہ چیف جسٹس آف پاکستان بنے تو ناصرف عدلیہ تقسیم تھی بلکہ پورے ملک میں نفرت اور تقسیم کی سیاست عروج پر تھی اور ملک کا معاشی صورتحال بھی انتہائی خراب تھی۔ یہ ساری مسائل ابھی بھی ہے۔

درج بالا مسائل قاضی فائز عیسی صاحب حل تو نہیں کرسکتے لیکن ایک بااُصول اور ملک کے اہم عہدیں پر بیٹھے ذمہ دار شخص کے طور پر اُن کے ذمہ داری بڑھ جاتی ہے اور لوگ ان سے یہ توقع کرنے لگتے کہ ایک ایسے وقت میں جب ملک کے ذمہ دار عہدوں پر بیٹھے تقریباً تمام لوگ نفرت اور تقسیم کے راستے پر چل پڑے ہیں۔ قاضی صاحب کم از کم ایسا نہیں کرینگے اور ساتھ میں اس جاری لڑائی کو کم کرنے کے لئے کوشش بھی ضرور کرینگے جو کہ ابھی تک دیکھائی نہیں دیے رہا ہے۔

اپنے حلف کے اگلے روز قاضی فائز عیسٰی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی ٹی وی پر براہ راست سماعت کی جو کہ پاکستان کے عدالتی تاریخ کا انوکھا واقع تھا۔ جب پورا ملک ٹی وی سکرینز پر عدالتی کاروائی دیکھ رہے تھا۔ ابھی تک قاضی فائز عیسی نے جتنے بھی فیصلے کیں۔ اُس میں انہوں نے لوگوں کو تنقید کا موقع کم ہی دیا ہے۔ چاہئے وہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پوسیجر بل کا فیصلہ ہو یا پھر ملک بھر میں عام انتخابات کے تاریخ کے حوالے سے فیصلہ ہو۔ انہوں نے آٹھ فروری کو ملک بھر میں عام انتخاب کرانے کا فیصلہ دیا تو اس فیصلے پر کئی حلقوں کی جانب سے تنقید بھی ہوئی۔ مگر وہ ایک حقیقت پر مبنی فیصلہ تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ نوے دن میں انتخابات نا کروا کر آئین کے خلاف ورزی ہوئی ہے لیکن ایک ایسے وقت میں جب پورا ملک ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑا ہے اور کوئی بھی ایک قدم پیچھے ہٹنے کےلئے تیار نہیں ہے۔ ایسے حالات میں باامر مجبوری یہ ایک اچھا فیصلہ تھا۔

اس تقسیم کی سب سے بڑی وجہ اس ملک کے سب سے بڑی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو ریاست کے جانب سے دیوار میں چُن دینے کی پالیسی سے پیدا ہوا۔ یہ جماعت اسی پالیسی کے خلاف اپنا جدوجہد کررہی تھی اور اسی دوران اِن سے نو مئی کی غلطی سرزد ہوئی اس کے بعد اس پارٹی کے ستارے گردش میں آگئے۔ ان کے لیڈران اور کارکنان کی غیر قانونی گرفتاریاں ہوگئی بلکہ بعض کو تو اغوا بھی کرلیا گیا۔ اس جبر کے بعد سے لیکر اب تک تقریباً چالیس فیصد رہنما کو تحریک انصاف چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔

نو مئی کے بعد تحریک انصاف کے تمام رہنما منظر نامے سے غائب ہوگئے اور ان کے سیاسی اجتماعات پر غیر اعلانیہ پابندی لگا دی گئی۔ عدالت سے ضمانت لینے کے باوجود پولیس لوگوں کو گرفتار کرتی ہے۔ اس جبر کے خلاف ملک کی تقریباً تمام عدالتیں بے بس نظر آرہی ہیں۔ لوگ یکدم غائب ہوجاتے ہیں پھر ٹی وی پر نمودار ہوجاتے ہیں۔ تحریک انصاف سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہیں۔ کسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہو کیا رہا ہے؟ تحریک انصاف کی کئی خواتین کو مہینوں سے جیل میں رکھا ہے۔ ظلم کی اس تاریکی کے خلاف عمران خان نے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی کو خط لکھا جس میں اس پوری صورتحال کو بیان کیا گیا جو نو مئی کے بعد سے ان کے پارٹی کو درپیش ہے۔ اور جس کا ذکر میں نے اوپر بھی کیا۔

اس خط میں عمران خان نے بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ورزیاں، غیر قانونی گرفتاریوں، جبری گمشدگیوں اور تحریک انصاف کے ساتھ جاری امتیازی سلوک کا تذکرہ کیا۔ شاید عمران خان کو اس پورے نظام میں وہ ایک بندہ نظر آیا جس سے انہوں یہ توقع رکھی کہ وہ اس مشکل وقت میں اُن کی کوئی مدد کریگا۔ مگر جس بے رُخی سے قاضی فائز عیسی صاحب نے اُس خط کا جواب دیا اس نے تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ ایک عام شہری کے طور پر مجھے بھی مایوس کیا انہوں نے جس طرح سے اس خط کے تکنیکی پہلو پر سوالات اُٹھائے اس نے سب کو حیران کردیا۔

چیف جسٹس نے سب سے پہلے یہ کہا کہ یہ خط میڈیا کو کیوں جاری کیا گیا، حالانکہ قاضی صاحب کو یہ علم ہونا چاہئے کہ عمران خان ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہے اور وہ جو بھی سیاسی قدم اٹھاتا ہے اسے میڈیا کے ساتھ ضرور شئیر کرتا ہے جو اُس کا حق ہے۔ پھر اُس نے یہ بھی کہا کہ مجھے اپنے ذمہ داریوں کا احساس ہے۔ اچھی بات ہے کہ چیف جسٹس کو اپنے ذمہ داریوں کا پتہ ہے لیکن اسے یہ بھی احساس رکھنا چاہئے کہ اس کے نیچے عدالتوں میں کیا چل رہا ہے۔ کس طرح انتظامی ادارے عدالتی احکامات کو ہوا میں اُڑا رہے ہیں اور عدالتیں مکمل بے بس دیکھائی دیں رہی ہے۔ چیف جسٹس کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ عہدہ آج ہے تو کل نہیں ہوگا اس لئے اسے ایسے فیصلوں اور بیانات سے گریز کرنا چاہئے کہ جس سے کل کو اُن کا نام تاریخ میں خدا نخواستہ برے الفاظ میں یاد رکھا جائے۔

Check Also

Imran Khan Anti Establishment Hain?

By Najam Wali Khan