Thursday, 19 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Samundar Paar Se

Samundar Paar Se

سمندر پار سے

اس کی طرف آج کی صبح کا پیغام کچھ یوں تھا کہ اچھے لوگ ہمیشہ اللہ پاک کے تحائف استعمال کرتے ہیں۔ ہونٹوں پر سچ، چہرے ہر مسکرائٹ، الفاظ میں دعا، آنکھوں میں ہمدردی، دل میں محبت، ہاتھوں میں خدمت اور فطرت میں عاجزی۔ وہ پاکستان گیا۔ ووٹ ڈالا اور لوٹ آیا۔ خوش تھا کہ ایک قومی فریضہ ادا ہوگیا۔ میں نے کہا ایسے ہی وقت اور پیسہ برباد کیا۔ آپ کو اس سے کیا حاصل ہوگا اور ماضی میں کیا حاصل ہوا؟ کہنے لگا اپنے رب اور وطن کی مٹی کے سامنے تو سرخرو ہوا ہوں۔

میں نے عرض کیا ہم سمندر پاروں کو چند حقوق حاصل تھے وہ بھی سمندر پار پاکستانیوں کو اپنے گوشۂ دل میں رکھنے کے دعویدار اور خود سمندر پار زندگی کا وسیع و عریض تجربہ و دعویٰ رکھنے والے، ایک سابق وزیراعظم نے چھین لئے۔ حتیٰ کہ ہم ائرپورٹ پر اترتے ہیں تو ہمارے موبائل تک کی سانس بند ہو جاتی ہے۔ اس کی سانسیں بحال کرنے کے لئے ہمیں چند دن کی چھٹیوں کا ایک حصہ اپنے خاندان کے ساتھ گزارنے کی بجائے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کے دفتر کے سامنے کڑی دھوپ اور دل جما دینے والی سردی میں قطار میں کھڑا ہو کے گزارنا پڑتا رہا ہے۔ اسے مکمل طور پر جانبر کرنے اور بھر پور زندگی عطا کرنے کے لئے لاکھوں روپے ٹیکس دینا پڑتا ہے۔

بعد میں آنے والوں نے کچھ احسان فرمایا اور پہلے ایک مہینے اور اب کچھ زیادہ مہینوں کی رعایت دی ہے لیکن یہ مسئلہ مکمل طور پر ختم نہیں کیا۔ آپ اتنی بڑی قربانی دے کر دیار غیر میں رہتے ہیں۔ اپنی ملکی معیشت میں سب سے بڑا حصہ ڈالتے ہیں۔ لیکن جب وطن عزیز لوٹتے ہیں تو وطن کی مٹی کو چھوتے ہی دنیا بھر سے آپ کو جوڑے رکھنے والا آپ کا موبائل زندگی کھو بیٹھتا ہے۔

وطن کی مٹی گواہ رہنا، یہ کتنے شرم کی بات ہے۔ کتنی گھٹیا سوچ ہے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کو اس کی ذرہ پرواہ نہیں ہے۔ بس پوری بے شرمی اور بے حیائی سے نت نئی اخترائیں ایجاد کرکے لوگوں کو طفل تسلیوں سے دھوکہ دیتے رہتے ہیں اور جب ان کی یہ بداعمالیاں اور چالبازیاں واپس ان کے پاس لوٹتی ہیں اور ان کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالتی ہیں تو یہ ششدر ہو کر استفسار کرتے ہیں کہ ہم نے ایسا کیا کر دیا کہ ہمارے ساتھ یہ ہو رہا ہے۔

جناب یہ آپ کا اپنا کیا دھرا ہے جو ایک سنہری اصول قدرت کے تحت آپ کے پاس لوٹ کر آتا ہے۔ ہمارا رب کتنا عظیم ہے کہ اس نے یہ خوبصورت خودکار قانون ازل سے وضع کر رکھا ہے۔ آپ جو گڑھا دوسروں کے لئے کھودتے ہیں، اس خوبصورت قانون کے بروئےکار آنے پر، خود اس میں گرتے ہیں۔

یہ رب العالمین کا اٹل اصول ہے۔ آپ دھوکہ دوسروں کو نہیں دیتے اپنے آپ کو دیتے ہیں اور اصول قدرت کے تحت آپ کی یہ بداعمالیں آپ کے پاس واپس لوٹتی ہیں۔ بالکل ایسے جیسے آپ گیند دیوار کے ساتھ مارتے ہیں تو یہ چند لموں میں آپ کے پاس واپس آ جاتی ہے یا جیسے آپ اونچی آواز میں پکارتے ہیں تو یہ آواز دیوار یا پہاڑ سے ٹکرا کر چند لمحوں میں گونج کی صورت آپ کے پاس واپس آ جاتی ہے۔ بالکل ایسے ہی آپ کا اچھا یا برا عمل آپ کے پاس واپس آتا ہے۔

ماضی میں سمندر پاروں کا ایک اور حق بھی ہوا کرتا تھا۔ اور وہ تھا سمندر پار پاکستانیوں کے بچوں کا پاکستان کے میڈیکل کالجوں میں داخلے کا کوٹہ۔ وہ بھی سمندر پار کا تجربہ رکھنے والے اور خود کو اس ملک کے سب سے مقبول، نامور وزیراعظم کہنے والے، اور اب خود کو دلوں کا وزیراعظم کہنے والے نے اپنے دورِ حکمرانی میں ختم کر دیا تھا۔

یہ کوٹہ سب سمندر پاروں کے بچوں کے لئے تھا۔ چاہے وہ خاندان کے ساتھ سمندر پار رہتے تھے یا خاندان کے بغیر۔ اس وقت کے اور اب دلوں کے وزیراعظم نے اسے صرف سمندر پار پڑھنے والے بچوں تک محدود کر دیا اور وطن عزیز میں شفقت و دستِ پدری کے سایہ و مدد کے بغیر رہ کر تعلیم پانے والوں پر اس سہولت کے دروازے بند کر دئیے۔

حد تو یہ ہے کہ دلوں کے راجہ اور وزیراعظم صاحب نے اس ملک کے لئے اپنی جوانیاں اور جانیں قربان کر دینے والوں کی پینشن کو بھی قومی خزانے پر بوجھ قرار دے دیا اور فرمایا کہ ہم اتنی بڑی رقم برداشت نہیں کر سکتے۔ میں حیران ہوں کہ اُس نے یہ بات کرنے کے لئے دل گردہ کہاں سے لیا اور وہ دل گردہ کس مواد کا بنا ہوا تھا جس نے اتنی گھٹیا و شرمناک بات پر ذرہ بھی شرم محسوس نہیں کی۔

اس کا بڑا صاف اور واضح مطلب تو یہ ہے کہ آپ نہیں چاہتے کہ آئندہ کوئی اس عظیم، دنیا کے خوبصورت ترین اور سونے کی چڑیا ملک کے لئے کوئی ایسی قربانی دے۔ آپ فرمائیں گے ملک کے لئے قربانی کسی لالچ کی بغیر ہوتی ہے۔ درست فرمایا۔ لیکن قربانی اور خدمت کرنے والوں کے خاندان بھی تو ہیں۔ ان کے پیٹ بھی تو ہیں۔ اُن کی ضروریات بھی تو ہیں۔

آئندہ اپنے آپ کو ملکی خدمت کے لئے پیش کرنے کے لئے انہوں نے تعلیم بھی تو حاصل کرنی ہے۔ کوئی ہنر بھی تو سیکھنا ہے۔ وہ یہ ہنر مفت میں کہاں سے سیکھ سکتے ہیں۔ آپ کے بچوں کو تو دیارِ غیر برطانیہ میں بھی یہ سب کچھ حاصل ہے۔ لیکن آپ پاکستان کے بچوں کو ان کے اپنے ملک میں ان کے والدین کی جان اور جوانی کی قربانی کے بدلے حاصل ہونے والی اس واحد سہولت سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ کیوں؟

ان کے بجلی اور گیس کے روزمرہ اضافوں سے موٹے ہوتے ماہانہ بل بھی تو ہیں۔ جناب آپ کو تو بل ادا کرنے، پاکستانی ٹچ دینے کے لئے نت نئے ویسٹ کوٹ، رنگ برنگی شلوار قمیصیں، نرم و ملائم پشاوری چپل، اور ماہانہ گروسری فراہم کرنے والوں کی کمی نہیں ہے لیکن جناب یاد رکھیں یہ سہولت آپ کی طرح ہر پاکستانی کو حاصل نہیں ہے۔ آپ کو تو اسلامی ٹچ دینے کے لئے قرآن و حدیث سکھانے والے بھی موجود ہیں۔ لیکن ملک کے لئے اپنی جان و جوانی کی قربانی دینے والے غیور پاکستانی کو تو اپنے بچوں کو ناظرہ قرآنِ عظیم پڑھانے کے لئے بھی ماہانہ فیس دینا ہوتی ہے۔

اور سب سے بڑھ کر آپ یہ سہولت کونسی اپنی جیب سے دے رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ان کی اپنی کمائی ہے جو انہوں نے زنگدکی بھر بے حساب ٹیکسوں کی مد میں قومی خزانے تک پہنچائی ہوتی ہے اور آپ کی اس مسلسل بہتان تراشی کا زخم بھی اپنے کشادہ سینے پر سہا ہے کہ پاکستانی ٹیکس نہیں دیتے۔ آپ ٹیکس نہ دینے کی یہ انتھک اور بے تکی رٹ دہائیوں سے لگاتار لگا رہے ہیں۔

میں آپ کو چیلنج کرتا ہوں آپ اپنی نام نہاد جماعت انصاف کے تمام سرخیل بروئے کار لاتے ہوئے اس عظیم ملک کے عظیم لوگوں کی جیبوں سے ادا کیے جانے والے ان گنت ٹیکس گن کر دکھا دیں۔ پھر ایک خدمت اور بھی انجام دیں اور بتائیں یہ تمام تر ٹیکس ادا کرنے کے باوجود عام پاکستانیوں کو، تعلیم، صحت، انصاف، روزگار، تحفظ، جیسی سہولتوں میں سے کیا کچھ حاصل ہے؟

تنخواہ اور پینشن کے متعلق اُس وقت کی سوچی گئی گھٹیا سکیم اب بھی گردش کر رہی ہے اور اگر خدا نخواستہ اب یہ لاگو ہوگئی تو دلوں کا یہ راجہ اور اس کا تہذیب یافتہ برگیڈ پوری ڈھٹائی سے اسے اس نئی حکومت پر ڈال دے گا۔ لوگوں کی یادداشت بھی ماشاءاللہ اتنی کمال ہے کہ وہ اسے من و عن تسلیم بھی کر لیں گے کہ دلوں کا راجہ ٹھیک کہہ رہا ہے کہ وہ جھوٹ بھی نہیں بولتا اور محبِ دین و وطن بھی ہے۔

دلوں کے راجہ کا ایک اور کارنامہ یہ بھی تھا کہ اس کے دور حکمرانی میں مہنگائی آسمان کو چھونے لگی اور تنخواہ اور پینشن یا تو بڑھائی ہی نہیں گئی اور اگر بڑھائی بھی تو کبھی ساڑھے سات اور کبھی دس فیصد۔ روزگار تو بالکل ہی ختم کر دیا۔ اس دور ہنر کے بعد تو اخبار میں روزگار کا اشتہار ہی نظر نہیں آتا۔

دلوں کے راجہ کے زرخیز دماغ نے اپنے سنہری دور میں ایک اور کارنامہ بھی سرانجام بھی دیا۔ وہ فائلر اور نان فائلر کا تصور لاگو کرنا ہے۔ آپ مجھے بتائیں ایک عام پاکستانی کی کون سی جائیداد، اثاثہ یا پونجی فائل نہیں ہے اور اس کا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ ازل سے باقاعدہ ایک محکمہ موجود ہے جو یہ کام پوری خوش اسلوبی سے انجام دے رہا ہے۔ جو ہر نئی خرید و فروخت کو ریکارڈ یا فائل بھی کرتا ہے اور قانون کے مطابق پورا ٹیکس بھی وصول کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی ایک غریب پاکستانی ان گنت ٹیکس بھی دے رہا ہے اور کسی بھی قسم کی خرید و فروخت پر ڈبل ٹیکس دے کر اس نام نہاد فائلر نان فائلر کی چکی میں بھی پس رہا ہے۔

میری نئی حکومت سے گزارش ہے کہ دلوں کے راجہ کے ان شرمناک اقدامات کو جڑ سے اکھاڑنے اور مکمل طور پر صفحۂ ہستی سے مٹانے میں ذرہ شرم محسوس نہ کرے۔ انہیں پوری ذمہ داری سے ختم کریں کہ یہ ایک ظالمانہ و جابرانہ ڈھٹائی و بے حیائی سے سرانجام دئیے گئے ہیں۔ انہیں ختم کرنا قومی خدمت ہوگی اور مخلوقِ خدا پر احسان عظیم ہوگا۔

میں ان کاموں ایک مختصر فہرست پیش کر دیتا ہوں:

1- وطن عزیز ترین میں آمد پر سمندر پاروں کے موبائل بند نہ کریں اور ان پر ٹیکس ختم فرمائیں اور ایک یا دو موبائل اپنے پیاروں کے لئے بطور تحفہ لانا بھی ٹیکس فری کر دیں۔

2- میڈیکل کالجوں کا سمندر پار کوٹہ پہلے کی طرح نہ صرف بحال کریں بلکہ اس کی سیٹوں میں اضافہ بھی کریں۔

3- آبادی کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے میڈیکل کالجوں کی تعداد میں بھی اصافے کی ضرورت ہے۔ پنجاب کی 12 کروڑ آبادی کے لئے صرف 16 سرکاری میڈیکل کالج ہیں اور ان میں سالانہ صرف ساڑھے تین ہزار طلبہ و طالبات کا داخلہ ہوتا ہے۔ جو کہ انتہائی کم تعداد ہے۔ ہمارے بچے شوق سے میڈیکل پڑھنا چاہتے ہیں تو انہیں یہ حق ہر صورت ملنا چاہیے۔

میڈیکل کالجوں میں بیٹے بیٹیوں کی تعداد میں توازن پیدا کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ اس وقت میڈیکل کالجوں میں ہماری بیٹیوں کی شرح داخلہ تقریباً 65 فیصد ہو چکی ہے۔ ماہرین کی رائے سے اس شرح میں توازن پیدا کرنا ایک اہم ضرورت ہے۔

4- یہ فائلر نان فائلر کا ظالمانہ نظام ختم کریں۔ ٹیکس پہلے ہی بہت زیادہ ہیں انہیں صحیح طریقے سے منظم کرائیں۔ نظام پہلے ہی موجود ہے۔

اس ملک میں اس وقت تک جتنے بھی مفید اور بڑے، نظر آنے والے اور لکھے ہوئے، عیاں اور نمایاں، کام ہیں وہ آپ ہی کے دور میں کئے گئے ہیں۔ باقی سب نے زبانی جمع خرچ کیا ہے۔ اپنی اچھی روایات کو برقرار رکھیے۔ اگر تاریخ اور یومِ حساب میں سرخرو ہونا ہے۔ انشاءاللہ آپ کے یہ کام آپ کو تاریخ میں بھی زندہ رکھیں گے اور یومِ حساب آپ کی سرخروئی کا باعث بھی ہوں گے۔

آخر میں یہ دعا: "اے میرے رب! تُو مجھے داخل کر سچائی کے ساتھ داخل ہونے کی جگہ (پر) اور مجھے نکال سچائی کے ساتھ نکالنے کی جگہ (سے) اور اپنی طرف سے ایک قوت کو میرا مدد بنا دے"۔

Check Also

Deobandi Ulema Ki Siasat

By Muhammad Aamir Hussaini