1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asif Masood/
  4. Sajawat Aur Banawat Par Kuch Baatein

Sajawat Aur Banawat Par Kuch Baatein

سجاوٹ اور بناوٹ پر کچھ باتیں

جس آدمی کو کہانیوں سے دلچسپی نہیں ہے وہ گویا خدا کو نہیں مانتا۔ خدا سب سے بڑا داستان گو ہے۔ میں آج آپ کو کچھ چھوٹی چھوٹی لیکن دلچسپ کہانیاں سناؤں گا۔ جن کا تعلق زندگی کی سجاوٹ بناوٹ سے ہے۔ کچھ اندر کی سجاوٹ، کچھ باہر کی بناوٹ کے متعلق۔ اب آپ کی قسمت آپ کو پسند آئیں یا نہ آئیں۔ میں نے اپنی داستان بیان کر دینی ہے۔ کچھ باتیں اگرچہ دل شکن ہیں لیکن یہ داستان کا حصہ ہیں۔

بعض اوقات دل میں ایسے خیالات بھی وارد ہوتے ہیں جو بڑے ہی گھٹیا ہوتے ہیں۔ شاید کچھ پلکیں بوجھل بھی ہو جائیں، شاید کچھ دل ٹوٹیں۔ لیکن دل ٹوٹیں گے تو گداز پیدا ہوگا۔ ایک برتن اگر ٹوٹ جائے تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ درد بڑھ کر رنج و الم میں تبدیل ہو جاتا ہے اور خود فراموشی کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ پھر غم و اندوہ کے بعد ایک نیا موسم نمودار ہوتا ہے، جو عام طور پہ بڑا سہانا اور ہوادار ہوتا ہے۔ بالکل بہار اور باد و باراں جیسا۔ جہاں پھول کھلتے ہیں اور پرندے چہچہاتے ہیں۔ گھنے جنگلوں میں ہرن کا بچہ چوکڑیاں بھرتا اور اٹھکھیلیاں کرتا ہے اور شیر شکار کرتا ہے۔

لیہ کا وہ دیہاتی لڑکا بہت سخت جان اور محنتی نکلا۔ کھیل کھیل میں ہی لیہ کالج سے گریجوایشن کرتا ہوا بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے انگریزی ادب میں ایم اے کر گیا۔ اس سے بڑھ کر کچھ حیران کن واقعات ابھی مستقبل میں رونما ہونے والے تھے۔ پہلا معجزہ یہ ہوا کہ یہ ایم اے کرتے ہی انگریزی جریدے ڈان ملتان کا رپورٹر ہوگیا۔ انتہائی اچھا کام انتہائی سادگی، روایتی دیہاتی عاجزی اور ایمانداری سے کرتا رہا اور اپنے سینئرز کے دلوں میں گھر کرتا رہا۔

جو آدمی مٹا مٹا سا ہو اسے مٹانے کو دل نہیں کرتا بلکہ اس میں کچھ رنگ بھرنے کو جی چاہتا ہے۔ اس کے اچھے کام، سادگی اور عاجزی نے اس کو وہ رنگ بخشے جو آگے چل کر اسے ایک دن ڈان اسلام آباد لے آئے۔ جہاں وارد ہونے کا اس نے کبھی خواب بھی نہ دیکھا ہوگا۔ لیکن قدرت کو انسان کی سادگی اور عاجزی پسند ہے۔ وہ اسلام آباد نہ صرف آگیا بلکہ یہاں اسے محمد علی خان اور ضیاءالدین جیسے جہاندیدہ مدیرانِ اعلٰی کی رفاقت اور رہنمائی میں کام کرنے نادر موقع ملا۔ کام چھوٹا بڑا نہیں ہوتا، اصل کام ذمہ داری قبول کرنا ہے۔

لیکن اصل سوچ جو اس موقعے پر اس سادہ دیہاتی کے دل و دماغ نے سوچی اور اس کی زبان سے ادا ہوئی وہ یہ تھی کہ مجھے نوکری تو شہرِ بے مثال اسلام آباد میں ڈان جیسے اونچے اور معیار کی مثال انگریزی جریدے میں بڑے اعلیٰ پائے کی مل گئی ہے، جس کا میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ لیکن یہاں اگر مجھے ایک صفائی کرنے والے کی نوکری بھی ملتی تو میں وہ کام بھی اس سے کہیں بڑھ کر اس جوش اور جذبے سے کرتا کہ ڈان آفس آنے والا کوئی بھی شخص دفتر کی صفائی ستھرائی دیکھ کر یہ ضرور پوچھتا کہ یہاں صفائی کرنے والا عظیم انسان کون ہے؟

کوئی بھی انسان چھوٹا بڑا نہیں ہے، بڑی محض اللہ کی ذات ہے۔ یہ انسان کی سوچ اور تقویٰ ہے جو اسے چھوٹا بڑا بناتا ہے۔ ہر انسان کے اپنے معیار کے مسائل ہیں چاہے وہ بادشاہ ہے یا گدا۔ اندرا گاندھی سے مارگریٹ تھیچر، شہزادی ڈیانا سے لے کر شہزادہ چارلس، پرنس آف ویلز شہزادہ ولیم اور ڈیوک آف سسکس شہزادہ ہیری سے لے کر شہزادی مریم اور شہزادہ بلاول تک سب اپنے اپنے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔

عوام بادشاہوں سے ڈرتے کہ کہیں ناراض ہو کر ہمیں کوئی سزا نہ دے دیں۔ بادشاہ عوام سے ڈرتے ہیں کہ ناراض ہو کر ہمارا امیج ہی خراب نہ کر دیں۔ کوئی صحافی ہمارے خلاف لکھ نہ دے جس سے عوام ناراض ہو جائیں۔ حالانکہ بادشاہوں نے کونسا ان سے ووٹ لینا ہوتا ہے۔ ہم کہتے ہیں بادشاہ تو بادشاہ ہے جو جی میں آئے کرے لیکن شاید ایسا نہیں ہے۔

ایسے میں زیب النِسا زیبیؔ کی ایک غزل یاد آئی۔

ایسا ہے کون جو مجھے حق تک رسائی دے

دیکھوں جسے بھی خوف زدہ دکھائی دے

اپنے ہیں شہر بھر میں پرایا کوئی نہیں

پھر بھی ہمارا دل ہے جو تنہا دکھائی دے

تخصیص کوئی ظالم و مظلوم کی نہیں

کوئی دہائی دے بھی تو کس کی دہائی دے

ہمدرد ہوں، غیور ہوں اور پُر خلوص ہوں

اے کارساز بہنوں کو اب ایسے بھائی دے

یہ زندگی ہے اپنی کبھی خوش کبھی اداس

اس کشمکش سے مجھ کو خدایا رہائی دے

زیبیؔ عجیب دور ہے یہ وحشتوں کا دور

سایہ بھی اپنا موت کا سایہ دکھائی دے۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بادشاہ اس کائنات کا صرف ایک ہی ہے جو ان سب چیزوں سے بے نیاز ہے۔ باقی سب مجبور ہیں۔ چاہے اپنی آزادی اور خود مختاری کے کتنے ہی ڈھنڈورے پیٹ لیں۔ ان کے اندر ایک سخت انجانا خوف ہے جو ان کو گھیرے ہوئے ہے۔ بے خوف و بے نیاز صرف وہ ہے جس نے اللہ بادشاہ کی بادشاہی دل و جان سے قبول کر رکھی ہے۔ خدا کو ماننے والے ثابت قدم رہتے ہیں۔ انہیں کوئی غم نہیں ہوتا۔ ان میں اضطراب جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ وہ تو خدا سے دوستوں کی طرح بے تکلف ہوتے ہیں اور اس سے دل پذیر باتیں کرتے ہیں۔

میں آج کل امریکی رائلز پر نیویارک ٹائمز کی بیسٹ سیلر مصنفہ کیتھرین میکجی کی کتاب "امیریکن رائلز" پڑھ رہا ہوں۔ وہاں بھی شہزادی شہزادوں کے مسائل پڑھ کر میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہوں کہ مسائل محلات میں بھی کم نہیں ہیں بلکہ کہیں زیادہ گمبھیر ہیں۔ غریب دیہاتی تو بڑا آزاد ہے۔ کھلی فضا میں رہتا ہے، آزاد سوچتا ہے اور کھلے لمبے سانس لیتا ہے۔ ان محلات میں تو بڑی گھٹن ہے اتنی کہ بسا اوقات سانس لینا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔

یہاں جہاں ایک طرف مستقبل کی ملکہ مجبوریوں میں جکڑی نظر آتی ہے۔ تو دوسری طرف اس کی چھوٹی بہن سخت احساس کمتری میں مبتلا ہے کہ وہ ملکہ کیوں نہیں بن سکتی۔ جو بننے والی ہے اس کے لئے ماحول اتنا بوجھل ہے کہ سانس لینا مشکل ہے۔ اس حد تک کہ اسے آنکھیں بند کر کے اپنے آپ کو یاد کرانا پڑتا ہے کہ اس نے زندہ رہنے کے لئے سانس بھی لینا ہے۔

کیتھرین میکجی امریکن رائلز کی ولی عہد شہزادی کے متعلق لکھتی ہے کہ ایک بار جب وہ صرف سات سال کی تھی تو اپنے چچا کی شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے پھولوں والی لڑکی کا لباس پہننے کے دوران، وہ کچھ اس قدر مضطرب و بیزار ہوئی کہ اس کی ماں نے اسے اپنے جسم کے کسی ایک بھی پٹھے کو حرکت نہ دینے کا حکم جاری کر دیا۔ اس نے شاہانہ حکم کی اس حد تک تعمیل کی کہ اس نے اپنے پھیپھڑوں کو بھی حرکت نہ دی۔ سات سالہ بیٹریس نے اتنے عزم کے ساتھ اپنی سانس روک لی تھی کہ وہ تقریباً جان سے ہی دھو بیٹھی تھی۔

ایک مرتبہ بناؤ سنگھار کے دوران سنگھار آرٹسٹ نے گڑگڑا کر اس سے گزارش کی، عزت مآب! کیا آپ اوپر دیکھنا پسند فرمائیں گی؟ شہزادی بیٹریس نے ہچکچاہٹ سے اپنی نظریں اٹھا لیں۔ لیکن وہ سمجھتی تھی کہ آنکھیں بند رکھ کر اضطراب کو اپنے آپ سے دور رکھنا اس کے لئے قدرِ آسان ہے۔

کام کا جذبہ ہی سب کچھ ہے۔ اگر یہ جذبہ ہے تو کام ایک رحمت اور تفریح ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو اس سے بڑی کوئی بلا نہیں ہے۔ بس جو مل گیا اسے دل و جان سے کرنا چاہئے۔ اس کے لئے شکر ادا کرنا چاہئے اور مایوس ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ اگر لگن اور صبر ہے تو خزاں گزرتے اور موسم بہار آنے میں دیر نہیں لگتی۔ بے صبری کم ظرفی کی علامت ہوتی ہے۔ آپ میں مستقبل دیکھنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ یاد رکھیں گلاب صحرا میں بھی پورے رنگ و نور اور خوشبو کے ساتھ کھلتا ہے۔ جہاں ابر کرم بہت کم برستا ہے۔

ایک دوسرے کے لیے کام اور دعا کریں۔ دنیا میں ہر انسان دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ ان کے درمیان ایک نیٹ ورکنگ ہے۔ وقت سے جو ملے چھین لو اور فائدہ اٹھاؤ۔ قدرت قدم قدم پر تمہارا ساتھ دے گی۔ زمانے کے ساتھ مت چلو بلکہ زمانے کو اپنے ساتھ چلاؤ۔ دنیا میں اندھیرا نہیں ہے اندھیرا ہمارے اندر ہے اگر آپ محنتی ہیں تو چاند اپنی پوری روشنی آپ کے اوپر ڈال دے گا۔ صبح کی تازہ دم ہوا ہمیشہ آپ کا استقبال کرے گی۔ زندگی میں رنگ بھر جائیں گے۔ اللہ آپ کی محبت دلوں پر نازل کر دے گا۔

بس صدق دل ضروری ہے۔ عشق صادق نہیں ہے، دل راغب نہیں ہے تو سب بیکار ہے۔ اس طرح سنجیدہ سوچ کی جگہ شرارتی اور آوارہ خیالات لے لیتے ہیں۔ پھر دوسروں کی مرضی کی تعمیل کرو لوگ تمہاری تعمیل کریں گے۔

Check Also

Kitabon Ki Faryad

By Javed Ayaz Khan