Qatar 2022 (2)
قطر 2022 (2)
یوروپین اور شمالی امریکن، ہمیشہ کی طرح کم از کم اپنے ظاہر میں سب سے الگ، سب سے جدا نظر آئے۔ سلام میں پہل، مسکراہٹ کا تبادلہ، اچھا لباس، اگرچہ بسا اوقات انتہائی مختصر اور ناکافی، لیکن تہذیب ہر رنگ میں نظر آئی۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر تنگ نہیں ہوئے، ہنسوڑ اور زندہ دل، رک گئے، قطار میں لگ گئے، باری کا صبر سے انتظار کیا، بھرے بادل کی طرح رکھ رکھاؤ اور حد ادب کا کومل بوجھ اٹھائے نظر آئے، بدمزاجی نہیں دکھائی بلکہ زندہ دلی سے دلوں میں جگہ پائی، جو کہا گیا کرتے نظر آئے۔ قانون اور قانون نافذ کرنے والوں کو احترام دیا۔
شاید اللہ نے ان کے دیو ہیکل اجسام میں دل بھی اتنے ہی وسیع و عریض لگا رکھے ہیں۔ جو محبت سے لبریز بھی ہیں اور انتہائی شفیق بھی۔ تہذیبی، تعلیمی اور اقتصادی لحاظ سے لاطینی امریکن دونوں کے درمیان میں کھڑے نظر آئے، نہ بہت سرنگوں اور نہ زیادہ سر بلند۔ ہاں کھیل کے میدان میں ان کے معیار کو چھونے کے لئے شاید دنیا کو ابھی کافی فاصلہ طے کرنا ہے۔ پیلے اور میراڈونا کی وراثت کو نیمار اور میسی جیسے سپوت پوری تندہی سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ میسی کی کھیل پر گرفت اور بے ساختہ پن دیکھنے والوں کو مبہوت کر دیتا ہے۔
مشرقی ایشیا سب سے بہتر نظر آیا۔ اس دفعہ علاقائی نمائندگی جاپان اور جنوبی کوریا کے پاس تھی۔ دونوں ٹیموں نے انتہائی مہذب رویہ اور شاندار کھیل پیش کیا۔ خاص طور جاپانیوں کو، میدان کے اندر اور میدان کے باہر بھی، ایک تہذیبی اور اعلیٰ اخلاقی مثال کے طور پر بیان کیا جاتا رہا۔ انہوں نے انتہائی مہذب اور اعلٰی اخلاقی قدروں کو ایک نیا معیار بخشا۔ مُجھے جاپان اور کروشیا کے پری کوارٹر میچ میں سٹیڈیم کے اندر جا کر بال بوائے ایریا میں، گول پوسٹ کے عین پیچھے اور اس آئرن بار کی نوک پر گھومتے کیمرے، جسے کبھی ہم ٹیلی وژن سکرین پر حیرت سے دیکھتے تھے، کے سائے میں فرائض انجام کا نادر موقع ملا تو جاپانی سٹینڈ میرے بالکل سامنے تھا۔
جاپانی مجھ سے دو میٹر کے فاصلے پر نعرے لگا کر اور قومی ترانے گا کر اپنی ٹیم کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ نہ صرف یہ کہ ان کا کندھے سے کندھا جڑا ہوا تھا بلکہ کچھ ایسا بھی محسوس ہوا کہ دلوں میں بھی دوریاں نہ تھیں۔ بدقسمتی سے جاپان وہ میچ پنلٹی ککس کی بنیاد ہار گیا۔ لیکن میں نے دیکھا کہ جہاں ہار کے دکھ سے ان کی نیم وا مختصر آنکھیں اشک بار تھیں، وہاں عین اسی لمحے ان کے ناتواں اور مختصر بازوؤں کے کناروں پر لگے ننھے منے ہاتھ تالی بجا کر کامیاب حریف کو داد بھی دے رہے تھے۔ شاید وہ جانتے تھے کہ خوشیاں اور مہمان اجتماعی ہوتے ہیں۔ ان کے بینروں پر لکھا تھا "ہم جاپان کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں۔ " وہ یقین نظر بھی آ رہا تھا۔ قطر کی مہمان نوازی کے تہہ دل سے سراہتے اور شکر گزار نظر آئے۔
ہمارا جنوبی ایشیا کچھ گڈ مڈ اور بکھرا بکھرا نظر آیا۔ ڈیڑھ ارب آبادی اور کھیلوں سے جنون کی حد تک لگاؤ رکھنے والے خطے کی فٹبال ورلڈ کپ میں کوئی نمائندگی نہیں تھی۔ لیکن تماشائی کے روپ میں پورے جوش و خروش سے آتے رہے۔ جذباتی جنوبی ایشیائی باشندوں کا صحیح پتہ نہیں چل سکا کہ اخلاقی اور تہذیبی اعتبار سے کہاں کھڑے ہیں۔ غلامی کے آثار کہیں بالکل واضح تو کہیں کچھ مخفی نظر آئے، لیکن بہرحال غصے، بے صبری، بے عملی اور کرختگی جیسی شکلوں میں موجود پائے گئے۔
اخلاقی قدروں پر کچھ مزید کام کیا جائے تو بہتر ہو سکتی ہیں۔ سب سے اچھا کام کرنے والے ہیں لیکن جذباتی ہونے کی وجہ سے اپنے اچھا کیے پر خود ہی پانی پھیر دیتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی بات پر آپے سے باہر ہونا چھوڑ نہیں سکتے اور پھر اس رویے پر نادم ہونے کی بجائے فخر کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ انسان کو فیض اس سے ملتا ہے، جس کی تقدیس دل میں ہوتی ہے۔ تدریس کیلئے تقدیس بہت ضروری ہے۔ انسان جب استاد کا ادب کرتا ہے، وہ اپنے مستقبل کا ادب کرتا ہے۔ "میں" یقین سے دور لے جاتی ہے۔ ہم احترام کرنا نہیں سکھاتے۔ استاد اور شاگرد کی حدود ہیں۔ استاد کو استاد ہی رہنا چاہیے، دوست نہیں۔ اگر دوست بن جائے تو اس کی باتوں پر عمل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
تقدیس بڑی اہم چیز ہے، جس کے پاس قرآن پاک کی تقدیس ہے، اسے قرآن پاک سے راستہ مل جائے گا۔ سب سے اعلٰی راستہ بھی قرآن پاک کا راستہ ہے۔ سب سے زیادہ قابل تقدیس ہستی آپ کی ذات مبارکہ ہے۔ فیض اس کیلئے ہے جس کے پاس احترام ہے۔ شاخوں کو پانی دینے سے جڑیں گیلی نہیں ہوتیں۔ جب تک آدمی پتہ ماری کی محنت نہ کرے، جب تک اسے رات کی سیاہی کو دن کے اجالے میں بدلنے کا ہنر نہ آئے، نصیبوں کی کالک نہیں دھلتی۔
جس شخص کو اپنی نیکیوں کے تذکرے پسند ہوں اور گناہوں پر استغفار نہ کرے، وہ متکبر ہے۔ استاد کہتے ہیں"اپنے بارے میں باتیں کرنا مکروہ ہے، اور اپنے بارے میں باتیں سننا اس سے بھی زیادہ مکروہ ہے۔ اندر سے روح کینہ، بغض، حسد اور لالچ سے لتھڑی ہوئی ہو اور ظاہر ایسے کرے کہ اس سے زیادہ عاجز اور دنیا سے بے پرواہ کوئی ہے ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ جب کسی کو عاجز کرنا چاہیں تو اس سے عاجزی چھین لیتے ہیں۔
قطر نے پچھلے دس سال بے شمار باتیں سنیں۔ تنقید برداشت کی۔ لیکن اپنے کام کی لگن کو کم نہ ہونے دیا، سخت ترین محنت کی اور آخر ایک ناممکن کو اللہ کی مدد سے حاصل کر لیا۔ "میں" اور تکبر کو دور رکھا، دوسروں کو احترام دیا اور پھر زیادہ دیر نہیں گزری کہ مخالفین بھی احترام دینے پر مجبور ہو گئے۔ اپنے خلاف برپا کینے، بغض، حسد اور لالچ کی سیاہ رات سے اچھے طریقے سے کنارہ کشی اختیار کئے رکھی۔ اچھا سوچتے رہے اور اس رات کی سیاہی کو اجالے میں بدل کر دم لیا۔ جس کی روشنی دیکھ کر آنے والے عش عش کئے بغیر نہ رہ سکے۔