Qatar 2022 (1)
قطر 2022 (1)
قطر میں فٹبال ورلڈکپ کی وجہ سے پچھلے چار مہینے کچھ لکھنے کا موقع نہ مل سکا۔ لیکن یہ چار مہینے زندگی کا ایک بہت بڑا اور شاندار تجربہ ثابت ہوئے۔ اس مختصر مدت میں بہت کچھ دیکھنے اور سیکھنے کا موقع ملا۔ جسے ان صفحات کے توسط سے آپ تک پہنچانے کی کوشش کروں گا۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ زندگی میں یہ موقع بھی آئے گا کہ دنیا کا سب سے بڑے سپورٹس ایونٹ کے کامیاب انعقاد میں مجھے بھی ایک چھوٹے سے پرزے کا کردار نصیب ہوگا۔ لیکن کبھی کبھی زندگی وہ کچھ دے جاتی ہے جو ہمارے منصوبے، کوشش اور وہم و گماں کا بھی حصہ نہیں ہوتا۔ انسان کی منصوبہ بندی اس قادر مطلق کی منصوبہ بندی کے آگے دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔
قطر نے جس احسن اور بے ساختہ انداز سے اس ایونٹ کے انتظامات کئے اس نے دوستوں کو تعریف اور دشمنوں کو منہ بند رکھنے پر مجبور کردیا۔ کم و بیش ہر چیز اپنی جگہ پر موجود پائی گئی۔ کامل تو صرف اللہ کی ذات ہے۔ سب چیزیں مہیا کر دینا اسی ذات باکمال کا وصف ہے۔ قطر نے انتظامات میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔ جس نے تمہیں پیدا کیا، وہ تمہارے خیال کو بھی پیدا کرتا ہے۔ اللہ تعالی کی ذات بابرکات نے قطر کی عاجزی پسند آئی اور اسے ان تمام خیالات سے نوازا جن کی اسے ان انتظامات کے دوران ضرورت تھی۔
ایک چھوٹا سا ملک اور اس دیو قامت ایونٹ کے انتظامات دیکھ کر کچھ ایسا لگا اور بہت سی بیٹھکوں میں یہ بات کی بھی گئی کہ قطر میں فٹبال ورلڈکپ کا انعقاد ایسے ہی تھا جیسے کوئی لاہور یا کراچی کا باشندہ اپنے پانچ مرلے کے گھر میں پورے شہر کو دعوت طعام دے دے۔ اور پھر اپنے حسنِ انتظام سے ہر اپنے کو تعریف اور ہر پرائے کو تعریف نہیں تو کم از کم خاموش رہنے پر مجبور کر دے۔ قطر نے یہی کچھ کر کے دنیا کو دکھا دیا کہ اگر قوتِ ارادی ہو، نیت اچھی ہو تو کوئی بڑے سے بڑا کام بھی انسانی ہمت کو شکست نہیں دے سکتا۔ ممولہ بھی اگر ارادہ کر لے تو اپنے اندر شہباز کے سے اوصاف پیدا کر سکتا ہے۔ اور شہباز بھی ہمت ہار بیٹھے تو ہوا کے دوش پر کاٹھی رکھنا کٹھن ہو جاتا ہے۔
زندگی میں کبھی آنکھ زیادہ کام کر جائے تو نظارہ بدل جاتا ہے۔ بے شمار حقیقتیں ہماری اطلاع میں ہوتی ہیں، مگر یقین میں نہیں ہوتیں۔ جب آپ یقین کرنا شروع کریں گے تو آپ کا ذہن اس کے حصول کے راستے تلاش کرنا شروع کر دے گا۔ قطر نے جس احسن طریقے سے اس ٹورنامنٹ کا خاکہ تیار کیا اور پھر کٹھور فیصلے کرکے اسے عملی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔ سچے اور پکے یقین کی ایک زبردست مثال ہے۔
بہت سارے ناقدین کی رائے میں یہ تاریخ کا خوبصورت ترین انعقاد کہلائے گا۔ یہ میدان کے اندر اور باہر وقوع پذیر ہونے والے اپ سیٹس کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ رہی بات اختلاف کی تو دنیا میں کون سا کام ہے جس سے کسی نہ کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود کام چل رہے ہیں اور چلتے رہیں گے۔ بحث پیچھے اور کھیل آگے نکل گیا۔ لوگوں کی توجہ صرف کھیل کی طرف ہوگئی۔
شاندار سٹیڈیم، بے مثال ماحول، لاجواب سہولتیں۔ دنیا بھر سے لاکھوں شائقین آئے اور قطر کی طرف سے ان کے لئے کئے گئے انتظامات اور مہمان نوازی سے حیران نظر آئے۔ اس سب کچھ نے ورلڈکپ کو یادگار بنا دیا۔ افتتاحی اور اختتامی تقریبات کو بہت تخلیقی اور فراخدلانہ طریقے سے تیار کیا گیا۔ جن میں قطر نے عرب اور مسلم کلچر کو انوکھے انداز میں پیش کیا۔ افتتاحی تقریب الخور شہر کے البیت سٹیڈیم میں ہوئی۔ اس خوبصورت سٹیڈیم میں ساٹھ ہزار شائقین کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ سٹیڈیم اس رات کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور ہر کرسی پر آنے والے مہمان کو خوش آمدید کہنے کے لئے ایک گفٹ پیک لٹکا ہوا تھا۔
دنیا کے ہر خطے سے تعلق رکھنے والی بتیس ممالک کی ٹیموں نے اس میں حصہ لیا اور دنیا کے سب براعظموں کے کم و بیش سو سے زیادہ ملکوں کے لوگوں نے اسے دیکھا۔ اس دوران ان سب قوموں کو انتہائی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ ایک انوکھا تجربہ تھا۔ ہر رنگ اور نسل کے لوگ دیکھے اور انتہائی قریب سے دیکھے۔ جن میں کچھ انتہائی اچھے اور کچھ ہماری نظر میں اچھائی سے ذرہ فاصلے پر نظر آئے۔ ہو سکتا ہے وہ بھی اچھے ہوں۔
ہماری سوچ ناقص اور متعصب ہو سکتی ہے۔ لیکن ان میں سے کچھ کو دیکھ اور مل کر دل میں خوشی کی لہر انگڑائی نہ لے پائی۔ براعظم افریقہ اور خاص طور پر مسلمان ممالک کے باشندوں نے اپنے رویوں سے خاصا مایوس کیا۔ میں مرثیہ نگاری کا قائل نہیں امید کا متلاشی ہوں۔ کہ رونے دھونے کی باتیں مایوسی کو جنم دیتی ہیں۔ لیکن ہمارے ان بھائیوں کا اخلاقی، اقتصادی، تہذیبی اور تعلیمی معیار خاصا مایوس کن نظر آیا۔
لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ان نقائص کو دیکھا گیا۔ مشاہدے میں لایا گیا اور اب لکھا جا رہا ہے تو اس کے نتیجے میں اب شاید کچھ ہاتھ دعا اور کچھ دوا کے لئے اٹھیں اور اس پر کچھ کام کر کے اسے بہتر بنانے کی سعی کر سکیں۔ ان کے لئے کچھ اچھا سوچ سکیں اور دعا کر سکیں کہ یہ لوگ بھی سیکھنے کا عمل شروع کریں۔ اپنے علم، اخلاق، اقتصاد اور کردار میں تبدیلی اور بہتری لا سکیں اور اگلی دفعہ ہونے والے کسی ایسے عالمی اکٹھ میں اپنے آپ کو ایک بہتر انسان کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔ اور ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو سکیں۔ (جاری)