Tuesday, 30 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asif Ali Durrani/
  4. Social Media, Samaj Aur Hamari Nayi Nasal (2)

Social Media, Samaj Aur Hamari Nayi Nasal (2)

سوشل میڈیا، سماج اور ہماری نئی نسل (2)

اس حوالے سے چند دنوں پہلے میں نے ایک دانشور سے کافی لمبی چوڑی بحث کی اور ان سے پوچھا محترم یہ ماڈرنزم کیا ہے؟ انھوں نے بتایا میں ماڈرنزم سے پہلے آپ کو ایک بات بتاتا ہوں ہماری نوجوان نسل مغربی ممالک کی کچھ چیزیں کاپی کرکے اپنی زندگی میں اپنا لیتے ہیں یہ آپ کے خیال میں اندھی تقلید نہیں؟ انھوں نے بتایا کہ وہ لوگ آپ کے کلچر کو کیوں فالو نہیں کرتے؟ یہ بنیادی سوال ہے۔ رہی بات ماڈرنزم کی تو میرے خیال میں بلکہ میں آپکو آسان الفاظ میں بتاتا ہوں کہ ایک گاؤں میں بہت سارے لوگ رہتے ہیں اس میں ایک شخص نے کافی زیادہ تعلیم حاصل کر رکھی ہے اور ایک بڑے ادارے میں ایک اعلیٰ عہدے پر براجمان بھی ہے اس کے علاؤہ اپنے بیٹے اور بیٹی کو شہر کے اچھے سکول میں داخل بھی کروایا ہے میرے خیال میں یہ بندہ ماڈرن ہے۔

جس کا باپ تیس یا چالیس ہزار کی نوکری کرتا ہے اور بیٹا ہاتھ میں ستر ہزار کا موبائل فون لے کر گھوماتا ہے اور بالوں میں مختلف قسم کے ہئیر اسٹائل بناتا ہے میرے نزدیک یہ ماڈرنزم نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ جس گاؤں میں سب تعلیم یافتہ ہوں سب کے بچے اچھے سکولوں میں پڑھ رہے ہوں سب کے پاس اپنی اپنی گاڑیاں ہو۔ اس کو ہم تعلیم یافتہ گاؤں یا علاقہ تو کہ سکتے ہیں لیکن ماڈرن نہیں انھوں نے کہا ایک گھر میں لڑکا پی ایچ ڈی کررہا ہے وہ میرے خیال میں ماڈرن ہے۔

بعض نوجوان جو دن رات سوشل میڈیا استعمال کررہے ہیں ان سے کچھ سوالات

کیا اپنے فالوورز کی تعداد بڑھانے کے لئےاپنی عزت کو داؤپر لگانا جائز ہے؟ کیا قرآنی تعلیمات اس بات کی اجازت دیتی ہے؟ جو عزت خاک میں مل گیا کیا وہ واپس آسکتی ہے؟ چلیں فرض کریں کہ اگر سوشل میڈیا بند ہو جائے تو پھر کیا آپ کی لوٹی ہوئی عزت واپس آسکتی ہے؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ویڈیو بنانے کا مقصد ہی کیا تھی کیا آج سے برسوں پہلے لوگ کھانا کھانے نہیں جاتے تھے، کیا اس وقت وہ اس قسم کی حرکتیں کرتے تھے بعض خواتین ایسی ہوتی تھی جس کو بولنے کی بیماری تھی تو اپنے محلے کے عورتوں کو بتاتی لیکن اس طرح نہیں جو اس لڑکی نے کیا۔

دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا کہ صرف آپ برینڈیڈ چیزیں استعمال کرتی ہیں؟ میرا ایک دوست ہے وہ اس قسم کے حالات کو دیکھنے یا سننے کے بعد مجھ سے پوچھتا ہے (اس سے کیا ہو جائے گا)

اصل میں یہ برینڈیڈ چیزیں خریدنا اور لوگوں کو میڈیا کی ذریعے دکھانا نفسیاتی بیماریوں میں سے ایک ہے۔ یہ بندہ اپنے آپ کو دوسرے لوگوں سے افضل سمجھتا ہے۔ غریب عوام روٹی کے لیے در بدر ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور ہمارے الیٹ کلاس کے لوگوں کے نخرے سوشل میڈیا پر ختم ہی نہیں ہورہے۔

کچھ دنوں پہلے باغیچے میں فلسفی افتخار احمد کے ساتھ بیٹھا تھا چاروں طرف بڑے بڑے درخت تھے اور درختوں کی بیچ میں چمن تھا چمن کے چاروں طرف رنگ برنگ پھولوں کے پودے تھے گلابوں کی خوشبو تھی شام کا وقت تھا اور مدہم سی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ میں اس بندے کے ساتھ سوشل میڈیا اور لڑکی کی وی لاگ کے بارے میں بات کر رہا تھا اس سے پوچھ رہا تھا کہ یہ آخر ہمارے ملک میں کیا ہورہا ہے انھوں نے کہا میں آپ کو آسان الفاظ میں سمجھاتا ہوں وہ الفاظ ان کی نظر میں تو مشکل نہیں تھے لیکن میرے لیے مشکل ضرور تھے۔

انھوں نے کہا سامنے دیکھو کیا ہے؟ میں نے کہا کچھ نہیں انھوں نے کہا آدھا زمین کے اندر ہے آدھا باہر میں نے غور سے دیکھا اور بولا یہ پتھر ہے انھوں نے کہا کیا یہ پتھر خود اس جگہ سے جا سکتا ہے میں نے کہا نہیں انھوں نے کہا کیا یہ بچے پیدا کرسکتا ہے؟

کہا نہیں پھر اس نے درخت کی طرف انگلی اٹھائی۔۔ کہا یہ درخت اپنی جگہ تبدیل کرسکتا ہے میں نے کہا نہیں پھر بولا کیا یہ اپنی نسل زیادہ کرسکتا ہے۔

میں خاموش ہوا اس نے کہا درختوں و پودوں میں ایسے پودے ہوتے ہیں جو اپنی نسل بڑھا سکتے ہیں۔ پھر اس نے کہا کہ ایک جانور کیا کرسکتا ہے میں نے فٹا فٹ جواب دیا، وہ چل بھی سکتا ہے کھا سکتا ہے بعض گھریلو جانور دودھ بھی دیتے ہیں اس نے کہا کہ آپکی باتیں تو درست ہے لیکن آپ جانور کو رسی سے مت باندھوں وہ دوسروں کی کھیتوں سے گھاس کھائے گا انسان کو نقصان پہنچاۓ گا کیونکہ جانور میں شعور نہیں ہے اس میں عقل نہیں ہے وہ یہ نہیں دیکھتا کہ جنسی خواہشات کہا پوری کرنی چاہئے۔ کہاں پر پیشاب کرنا چاہئے لیکن انسان کے پاس عقل و شعور دونوں ہیں وہ سچ و جھوٹ میں فرق کر سکتا ہے وہ غلط و درست میں تمیز کرسکتا ہے وہ دوسرے انسان کا دکھ درد محسوس کرسکتا ہے۔

وہ یہ محسوس کرسکتا ہے ہے دوسرا انسان کافی دنوں سے بھوکا ہے بلکہ وہ اس کی مدد کرنے کی بھی ہمت رکھ سکتا ہے اگر اس کے پاس طاقت ہو اور جب وہ عوامی نمائندہ ہو تو وہ اپنے عوام کے لیے آواز بھی اٹھا سکتا ہے یہ انسانیت کے ساتھ ساتھ ان کا فرض بھی ہے حتی کہ وہ اپنی جنسی خواہشات کو بھی قابومیں رکھ سکتا ہے۔

میں نے کہا اگر کوئی انسان اس طرح نہیں کرتا تو اس نے ڈائریکٹ جواب دیا اس کی شکل تو انسانوں جیسی ہے لیکن کام سارے حیوانوں جیسے۔۔

(ختم شد)

Check Also

Solar Energy Se Bijli Hasil Karne Walon Ki Hosla Shikni

By Nusrat Javed