Tuesday, 30 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asif Ali Durrani/
  4. Purani Yaadein Aur Naya Daur

Purani Yaadein Aur Naya Daur

پرانی یادیں اور نیا دور

کچھ ماہ پہلے ایک بڑے عمر شخص سے گفتگو کر رہا تھا۔ انھوں جوانی کا ذکر کیا۔ کہا میرے دور میں ریڈیو سنے کا مزہ ہی الگ تھا، لوگ بہت شوق سے ریڈیو پروگرامز سنتے تھے۔ بازار میں ہر دوکاندار کی پاس ریڈیو تھا اور وہ پروگرامز کے وقت یاد رکھتے تھے کہ اس وقت یہ پروگرام نشر ہوگا۔ اس میں تفریح اور حالات حاضرہ کے پروگرامز ہوتے تھے۔ کرنٹ افیر پر سینر اور قابل تجزیہ نگار گفتگو کیا کرتے تھے۔

مزید بتایا کہ سنے والوں کی یہ خواہش ہوتیں تھیں کہ کس طرح ہم ان لوگوں سے ملے جو پروگرامز کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جب میں خود ریڈیو سنتا تھا تو میرے دل و دماغ میں یہ خواہش پیدا ہوتی تھی کہ یہ بات کرنے والا کس طرح کا ہوگا، میں ان سے کیسے ملوں گا، انھوں نے کہا کہ جب فون پر بات کرنے کا موقع ملتا تھا تو میں بہت خوش ہوتا کہتا، ایک دن ملیں گے بھی۔ انھوں نے کہا کہ جب ہم شادی بیاہ یا بازار میں جاتے اور وہاں پر باتوں سے ہم پروگرام میزبان کو پہچانتے۔

پھر ان کے قریب جاتے اور ان سے پوچھتے کہ آپ ریڈیو پر پروگرام کرتے ہو، اس طرح ان کے ساتھ ہماری بات چیت ہوتی تھی۔ ایک پیار و محبت کا رشتہ ہمارا اور انکے کے بیچ میں تھا۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ جب یہ شوشل میڈیا نہ تھا تو زندگی کتنی خوب صورت اور پر سکون تھی، لوگ ملکی صورتحال سے اپنے آپ کو باخبر رکھنے کے لیے اخبار پڑھتے تھے، ریڈیو سنتے تھے۔ لوگ لائیبرریوں میں جاتے، کتابیں پڑھتے۔

لوگوں کی لیٹریچر کے ساتھ محبت تھی مصنفین شوق سے لکھتے تھے، کیونکہ پڑھنے والے تھے، اگر ڈرامے کی بات کریں تو ایک وقت تھا شام کی وقت گھر میں سب مل کر ٹیلی وژن پر ڈرامہ دیکھتے تھے۔ نوجوان نسل کی ہاتھوں میں موبائل کی جگہ کتاب یا مگیزین ہوتی۔ ایک پیار کا رشتہ نوجوانوں اور کتاب کی درمیان تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ ہوا نے حالات کا رخ بدلا اور سوشل میڈیا میدان میں آیا۔

اس نے بہت کم وقت میں بہت ترقی کر لی اور لوگ اس سوشل میڈیا جیسے لاعلاج مرض میں مبتلا ہوئے، سوشل میڈیا کی وجہ سے نوجوانوں نے کتاب شیلف میں رکھ دی اور موبائل کو جیب میں رکھا، اسی طرح لائیرریوں و کتابوں کو چھوڑ کر سوشل میڈیا پر ناچنا شروع کیا، آج کا نوجوان غم و خوشی ہر وقت موبائل میں مصروف رہتا ہے، دکھ کی بات یہ کہ ہمارے بچے اور بچیاں بولتیں ہیں کہ وہ پرانہ زمانہ ختم ہوگیا یہ نیا دور ہے یہ تو سب کو معلوم ہے۔

کہ پرانے زمانے کی شادی بیاہ میں طوائفیں رات کو حجروں میں مردوں کے سامنے ناچتی تھیں اور شادی والے ان کو پیسے دیتے تھے آج کے دور میں نوجوان لڑکیاں جب سوشل میڈیا پر ناچتی ہے، تو ہر ذی شعور شخص کے دل و دماغ میں سوال پیدا ہوگا کہ جس کو یہ لڑکیاں ماڈرنزم کہتی ہے کیا یہ ماڈرنزم ہے؟ پرانے وقتوں میں لڑکیاں اور لڑکے کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنے کے لیے جاتے تھے اور ان میں یہ احساس ہوتا تھا کہ میری زندگی اور تعلیم کے ساتھ میری فیملی کی بہت ساری امیدیں جڑی ہوئی ہیں۔

وہ شوق سے پڑھتے اور اپنی فیملی کا نام روشن کرتے تھے۔ وہ کسی کی بڑی گاڑی، گاؤں، پیسوں اور کاروبار سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ ان کی نظریں ہمیشہ اپنی منزل کی طرف ہوتی تھیں، آج ایسا نہیں۔ آج یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اکثریت لڑکیاں اور لڑکے صرف عشق و محبت اور عیش و عشرت کے لیے جاتے ہیں۔ آج کل لڑکیاں یونیورسٹیوں میں ڈانس کرتی ہیں اور پھر اس کو اپنی سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اپلوڈ کرتی ہے۔

کہتی ہے کہ ہماری فالوورز بڑھے اور زیادہ سے زیادہ لوگ سوشل میڈیا پر مجھے دیکھے صرف دو سیکنڈ کی لیے مان لیتے ہیں کہ آپ کو بہت سے لوگوں نے دیکھا آپکی ویڈیوز کو بہت سے لوگوں نے پسند بھی کیا۔ آپ کو کمنٹ سکشن میں یہ بھی بتایا کہ آپ بہت خوب صورت ہے حسین و جمیل ہیں۔ مختلف سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ ایک بنیادی سوال اس سے کیا ہو جائے گا؟ دوسرا کہ آپ تعلیمی ادارے میں کیوں آتی ہیں یہ کام تو گھر میں بھی ہوسکتے ہیں۔

یہ بھی ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ کوئی اپنے بیڈ روم سے کھانے اور کپڑوں تک سب دوسروں کو دکھاتے ہیں۔ کہ میرے ساتھ یہ ہے۔ ان سے جاہل شخص دنیا میں نہیں۔

Check Also

Manzil Yehi Kathin Hai

By Zafar Iqbal Wattoo