Tuesday, 30 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asif Ali Durrani/
  4. Pakistani Tv Drame

Pakistani Tv Drame

پاکستانی ٹی وی ڈرامے

قلم ایک ایسی شے ہے جو طالب علم، استاد، ڈاکٹر، انجینیئر، صحافی، مصنف، شاعر، ادیب، کلرک، آفیسر اور اس کے علاؤہ بہت سے لوگ استعمال کرتے ہیں۔ قلم سے شاعر شعر لکھتا ہے افسانہ نگار افسانہ، ناول نگار ناول اور کالم نگار کالم لکھتا ہے۔ قلم ایک ایسی چیز ہے جس کو ہر کوئی استعمال کرتا ہے۔ اگر لکھاری کی بات کریں تو ایک لکھاری کی بدولت معاشرہ ترقی کرتا ہے۔ ایک لکھاری جب اپنا قلم بیچتا ہے تو وہ صرف قلم ہی نہیں بیچتا بلکہ اپنے آپ کو بھی بیچتا ہے کیونکہ قلم ایک لکھاری کی تلوار ہے ایک اچھا لکھاری معاشرے موجود مسائل کو قریب سے دیکھتا ہے اور پھر اس پر لکھنا شروع کرتا ہے۔

پرانے وقتوں میں جب ڈرامہ نویس ٹیلی ویژن ڈراما لکھتا تھا تو اس ڈرامے کے لیے وہ بہت ریسرچ کرتا تھا معاشرے کے مسائل کو قریب سے دیکھتا اس کے علاؤہ بڑے بڑے ادیبوں کے ساتھ بیٹھتا تھا جن موضوعات پر یہ لکھنا چاہتا تھا تو ان کے ساتھ بیٹھ کر اس کے بارے میں بات چیت کرتا تھا۔ میں اس موضوع پر لکھنا چاہتا ہوں کیا یہ درست ہے کہ نہیں۔ اس کے بعد وہ لکھنا شروع کرتا تھا پھر پروڈکشن والے اس پر کام کرتے تھے اور جب ڈراما ٹی وی پر نشر ہوتا تو لوگ ان سے کچھ سیکھتے تھے۔ جو آج کل نظر نہیں آرہا وجہ یہ ہے کہ ڈراما نِگار نے اپنا قلم بیچ دیا ہے۔ اگر ہم پرانے ڈراموں کو غور سے دیکھیں تو ان میں ایک سبق، نصیحت ہوتا تھا وہ ڈرامہ نگار ایک یا دو سال میں ایک ڈرامہ لکھتا تھا یعنی مکمل کرتا تھا۔

ڈراما کسے کہتے ہیں؟ ڈرامے کا اصل مقصد کیا ہے؟ میرے خیال میں ڈرامے کا مقصد معاشرے کی اصلاح کرنا ہے لیکن تفریح کی شکل میں جسے زیادہ تر لوگ انٹرٹینمنٹ کہتے ہیں وہ چیزیں عوام کو بتانا یا ان مسائل کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنا جو معاشرے میں ہو رہا ہیں یا موجود ہے لیکن عوام اسے دیکھ نہیں سکتے کیوں بعض مسائل پوشیدہ ہوتے ہیں اور ان مسائل کو ختم کرنا یا ان کا حل تلاش کرنا اور عوام کو بتانا یہ ایک ڈراما نویس کا کام ہے اس کے علاؤہ عوام میں شعور اجاگر کرنا اور ان کو غلط راستوں سے روکنا یہ کام بھی ایک قابل ڈرامہ نگار کا کام ہے اور وہ یہ کرسکتا ہے۔

ایک وقت تھا جب شام کو ٹیلی ویژن ڈرامہ نشر ہوتا تھا تو اس ڈرامے کو دیکھنے کے لیے بازار بند ہوتے تھے، گلیاں سنسان ہو جاتی تھیں، لوگ گھر میں اکٹھے بیٹھ کر ڈراما دیکھتے تھے۔ لیکن آج کے دور میں ڈراما اس قابل نہیں رہا کہ لوگ فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھیں، آج کل کے ٹی وی ڈرامہ ایک ٹرائی اینگل سے گھومتی ہے۔ آج کے دور میں جو ڈرامے بن رہے ہیں تو اس میں عورت، دولت، غربت، عشق و محبت یہی سب دکھایا جاتا ہے اور یہ تو سب کو معلوم ہے کہ ہر کام کا ردعمل بھی ہوتا ہے تو نوجوان نسل اسی کو دکھتی ہے اور اس قسم کے کام پھر کرتے ہیں۔

میرا ان ڈرامہ نگاروں سے یہ سوال ہے کہ آپ کے پاس صرف اس قسم کے موضوعات ہیں؟ اس کے علاؤہ بھی تو ملک میں کئی ایسے مسائل ہیں۔ جن کو ڈرامے کی شکل میں پیش کرنا ایک ڈراما نگار کا کام ہے۔ دوسرا سوال کہ آپ لوگ صرف عشق و محبت اور دولت کے بارے میں کیوں لکھتے ہیں؟ چلو ایک سیکنڈ کے لیے مان لیتے ہیں کہ عشق و محبت کو بھی لوگ پسند کرتے ہیں، دیکھتے ہیں۔ لیکن ہر ڈراما ان تین چیزوں تک محدود کیوں ہوتا ہے؟ زیادہ تر لوگ سوشل میڈیا پر بھی ان ڈراموں پر تنقید کرتے ہیں جو عشق و محبت اور دولت تک محدود ہوتی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو موجودہ دور کے ہر ڈرامے کی کہانی عشق و محبت کے گرد گھومتی ہے بس صرف زاویے اینگل کا فرق ہوتا ہے کوئی ایک زاویے سے ان تین چیزوں کے بارے لکھتا تو کوئی دوسرے زاویے سے۔

میں ان مخصوص موضوعات کی بات کر رہا ہوں جو آج کے دور میں ہر چینلز پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ ٹی وی چینلز والے اپنے ڈراموں میں عشق و محبت، لڑکی اور دولت کے بارے میں کیوں بتاتے ہیں؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا چینل والے اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے یہ حربے استعمال کررہے ہیں؟

آج سماج میں جو بگاڑ سا پیدا ہوا ہے ان میں کچھ حصہ ان ڈرامہ نگاروں کا بھی ہیں۔ آج کل نوجوان نسل کی جو عادات ہیں اور جس قسم کی زندگی وہ گزارنا چاہتے ہیں۔ اگر کالج و یونیورسٹی کی بات کریں تو وہاں پر لڑکیوں کے جو کرتوت ہیں اور جس طرح کی محفلوں میں وہ بیٹھنا چاہتی ہیں، کس طرح کا لباس پہنتی ہے یہ سب ان لڑکیوں کو کس نے سکھایا یا کہاں اس نے یہ دیکھا یہ بنیادی سوال ہے۔ ایک طرف تو سوشل میڈیا نے سب کچھ تبدیل کیا اور دن بدن کر رہاہے۔ ایک وقت کہ نوجوان نسل میں شرم، حیا، احترام اور عزت تھا گھر میں بڑے جب بات کیا کرتے تھے تو چھوٹے خاموشی سے سنتے تھے لیکن آج کل ایسا بہت کم ہے۔

نوجوان نسل کہتی ہے کہ ہم اچھی طرح سب کچھ جانتے اور سمجھتے ہیں ایک وقت تھا جب گھر میں کھانا پکتا تو سب گھر والے خوشی سے کھانے کی میز پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔ آج کا نوجوان بس اپنی دنیا میں غرق ہے کھانے کے لیے آن لائن خوراک منگواتا ہے اور اکیلے بیٹھ کر کھاتا ہے سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ اکیلا پن اور یہ سب اس کو کس نے سکھایا۔ لیکن وہ بھی ایک وقت تھا کہ گھر میں سب شام کھانے کے لیے بیٹھ جاتے تو والد یا گھر کا بڑا بچوں سے پوچھتا تھا کہ آج کا دن کیسا گزرا اس طرح پڑھائی کے بارے میں پوچھتا تھا ایک محبت و پیار کا رشتہ بڑوں اور چھوٹوں کے درمیان تھا اور نوجوانوں کو بھی یہ احساس ہوتا کہ گھر کے بڑے نے مجھ سے تعلیم کے بارے میں بات کی ایسا نہ ہو کہ کل میں کم نمبر حاصل کروں۔ میں اور بھی زیادہ پڑھائی کرونگا اس طرح لڑکیاں بھی یہ سوچتی تھیں۔ یہ رواج آج کل کے گھرانوں میں بھی ہیں لیکن پہلے کی نسبت کم ہے۔

موجودہ دور میں ڈراما ان چیزوں کے اردگرد گھومتا ہیں۔ لڑکا، لڑکی، پیار محبت اور دولت اگر پاکستانی ٹیلی ویژن ڈراموں کو دیکھے تو لڑکا لڑکی کی عشق میں مبتلا ہوتا اور لڑکی لڑکے کے عشق میں، ڈرامے میں لڑکا لڑکی کے پیچھے جانور کی طرح بھاگتا ہے اس طرح ان ٹی وی ڈراموں میں ایسا سین بھی دیکھنے کو ملتا ہے جس میں لڑکی دولت اور شہرت کی پیچھے جاتی ہیں۔ میں زیادہ گہرائی میں نہیں جاتا بلکہ ان ڈراموں کا سرسری حال احوال بیان کرتا ہوں آج کا ڈراما ان مخصوص چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے جو ڈرامے نشر ہورہے ہیں یہ ویسے خود بخود تو نشر نہیں ہوتے بلکہ ان کو پہلے کوئی لکھتا ہے اور خاص ایجنڈے کے تحت یہ لکھی و بنائی جاتی ہے۔

ایک پل کا بھی یہ خیال ذہن میں نہیں آتا کہ میرے اس لکھے گئے ڈرامے سے معاشرے پر کیا اثر پڑے گا۔ وہ یہ بھی نہیں سوچتا کہ میرے اس برائے نام ڈرامے کے دیکھنے سے نوجوان نسل پر کیا اثر پڑے گا۔ وہ یہ بھی نہیں سوچتا کہ میں نے جو لکھا ہے کل کو میرے خاندان میں کسی کے ساتھ حقیقت میں ایسا ہو سکتا ہے۔ ہم نے تو سنا تھا کہ جو لکھاری ہوتا ہے وہ معاشرے کا ایک اہم فرد ہوتا ہے وہ معاشرے کے مسائل بارے میں سوچتا ہیں اور بعد میں اپنا قلم اٹھا کر اس پر کچھ لکھتا ہے اور اس مسئلے کی حل نکالتا ہیں لیکن جو ہم نے سنا تھا وہ ایک افسانہ تھا۔

موجودہ دور میں جو ڈرامے بن رہے ہیں ان کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ کسی نے لکھاری سے قلم خریدا ہے سوچ، خیال اور فکر خریدار کا ہوتا ہے لکھاری صرف لکھتا ہے، نام بھی لکھاری کا استعمال ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں ہر کوئی بلکہ اکثریت لڑکیاں اور لڑکے کہتے ہیں کہ یہ ماڈرن دور ہے وہ اس کو ماڈرنزم کہتے ہیں۔ لیکن یہ ماڈرنزم نہیں بلکہ مائنس ماڈرنزم ہے کیونکہ لڑکا لڑکی کی محبت عشق ہر گز ماڈرنزم نہیں ہے۔ پہلے وقتوں میں ڈرامے میں لڑکی کی سر پر ڈوپٹہ ہوتا تھا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ڈوپٹہ کندھے تک آگیا جب ڈوپٹہ سر پر تھا تو سماج میں موجود خواتین کی سروں پر بھی دوپٹہ تھا لیکن جب کندھے تک آیا تو معاشرے میں بھی خواتین کی ڈوپٹہ کندھے تک آیا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب ڈرامے میں لڑکی نے دوپٹہ رسی کی طرح گلے میں ڈال دیا اور اس طرح کچھ وقت گزرنے کے بعد ڈرامے میں لڑکیوں نے جینز پہننا شروع کردیا تو معاشرے میں الیٹ کلاس کی لڑکیوں نے بھی ایسا کرنا شروع کردیا۔ آج کل ہم سماج و معاشرے میں روز دیکھتے ہیں۔

جہاں تک دوپٹے کی بات ہیں تو پاکستان میں غربت زیادہ ہے دوسرا تعلیم کی کمی ہے جب یہ نوجوان لڑکیاں موبائل پر اس قسم کی ڈرامے دیکھتی ہیں۔ تو ان کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوجاتا ہے کہ مجھے کوئی ایسا امیر اور تعلیم یافتہ لڑکا ملے۔ بہت پہلے ایک شخص نے کہا تھا کہ آج تک کتنے بڑے بڑے ہیرو اور ہیروئن نے پسند کی شادی کی ہے۔ اگر کی ہے تو ان میں اور دیکھنے والے اس غریب طبقے میں بہت فرق ہے۔ لڑکے بھی شریف نہیں بلکہ وہ بھی حسین و جمیل اور مالدار لڑکی کی تلاش میں سوشل میڈیا ہر اور عام زندگی میں مختلف حربے استعمال کرتے ہیں۔ موجودہ وقت کے نوجوان نسل کو چاہیے کہ ڈرامے کو ڈرامے کی نظر سے دیکھے اور کوشش کریں کہ جو اچھا ڈراما ہے وہ دیکھے اور ان سے کچھ اچھی چیز یعنی سبق سیکھے باقی یہ عشق و محبت کی کوئی اہمیت نہیں۔

Check Also

Barish Aur Muhabbaton Ki Uraan

By Amirjan Haqqani