Tuesday, 30 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asif Ali Durrani/
  4. Main Likhoon Ke Na Likhoon

Main Likhoon Ke Na Likhoon

میں لکھوں کہ نہ لکھوں

بقول اکبر الہ آبادی

کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو

جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو

یہ لکھو یہ مت لکھو یہ ایڈیٹ کرکے لکھوں، کے خلاف مت لکھو میں فلاں جماعت کو سپورٹ کرتا ہوں اس کے خلاف مت لکھو۔ نہیں بھائی میں تو ا ب ت جماعت کا حامی ہوں آپ اس کے بارے میں مت لکھو نوجوان لڑکی نے ہاتھ میں پلے کارڈ پکڑا ہے زور زور سے حکمرانوں کو آوازیں دے رہی ہے میرا بھائی لاپتہ ہے اس معصوم لڑکی کی عزت سڑک پر مجروح ہوتی ہے ان کے بارے میں بھی مت لکھو۔

بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر کوئی صحافی ان مسائل کو اجاگر نہیں کرے گا یعنی قلم نہیں اٹھائے گا تو اس بارے کون لکھے گا یا یہ بنیادی سوال ہے؟

بقول فیض احمد فیض

ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے

جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے۔

ویسے تو میڈیا کی بہت سی تھیوری نظریے ہیں ایک نظریہ جس کو "انگلش میں ایجنڈا سیٹنگ تھیوری" کہا جاتا ہے یہ بہت وسیع نظریہ ہے اس میں بہت سے پوائنٹس ہیں لیکن میں اس نظریے کے ایک پوائنٹ پر بات کرنا چاہتا ہوں وہ ہے "گیٹ کیپر"۔ شروع میں جس کے بارے ذکر کیا کہ یہ لکھو یہ مت لکھو اس کو کنٹرول یہ "گیٹ کیپر" کرتے ہیں۔ "گیٹ کیپر" اصل میں ایڈیٹرز اور اداروں کے مالک ہوتے ہیں کیونکہ ہر میڈیا چینل نے اپنے لیے ایک ایجنڈا بنایا ہے کہ ہم اسی کے تحت کام کرینگے اور یہ ہمیں یہ تھیوری یا نظریہ بتاتی ہے۔

ہر ادارے کا اپنا ایجنڈا ہوتا ہے اور اسی کے متعلق خبریں شائع کرتے ہیں پھر یہ نظریہ ہمیں یہ بھی بتاتا کہ اس سے عوام پر کس طرح اثر پڑتا ہے اور اس میں ایک لیول یہ بھی آتا ہے کہ جہاں پر اس نظریہ کی وساطت سے ایجنڈا بنانے والے دیکھ سکتے ہیں کہ صحافتی ادارہ جو نیوز یا جو کچھ شائع کر رہے اس سے عوام پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں یا ہو رہے ہیں اور اس کی بہترین مثال پاکستان تحریک انصاف حکومت ہے کیونکہ ان کی حکومت سے سالوں پہلے میڈیا نے اس "تھیوری" پر بہت محنت کی تھی اور آج کل نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ اتنے وقت میں انہیں میڈیا کے ذریعے عوام کے مائنڈ سیٹ کو کس طرح تبدیل کیا۔

پاکستان میں خاص طور پر یہ بہت عام سی بات ہے کہ جس بندے کے ذہن میں بھی یہ خیال آ جاۓ کہ مجھے صحافی بننا ہے تو پھر کسی ڈگری کی ضرورت نہیں وہ ہر وقت صحافت شروع کر سکتا ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ پوچھنے والا کوئی نہیں اگر میں یہ کہوں کہ پاکستان میں صحافت کے لیے نہ کسی ڈگری نہ کسی ڈپلومہ کی ضرورت ہے تو یہ بالکل بھی غیر مناسب نہیں ہوگا۔

صحافت جو کہ ایک عظیم پیشہ ہے لیکن وقت کے ساتھ یہ عظیم پیشہ کچھ لوگوں نے اتنا بدنام کیا کہ اب ہر کوئی صحافت اور صحافی سے نفرت کرتا ہے جو عزت و احترام پہلے لوگ صحافیوں کی کرتے تھے آج کے زمانے میں نہیں کرتے۔ اب یہاں ہر شخص یا پڑھنے والے کے ذہن میں یہ سوال بھی پیدا ہوگا کہ صحافت میں تو فیض احمد فیض صاحب، مولانا ابوالکلام آزاد صاحب، مولانا ظفر علی خان اور دیگر بڑے مسلمان صحافیوں پر حکومت کی طرف سے پابندی لگائی گئی تھی۔

اور ان معزز و دلیر صحافیوں میں بعض نے بہت عرصہ جیل میں بھی گزارا تھا اور اس وقت کی حکومتوں نے ان کے اخبارات بند کیے تھے تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ لوگ اصلی معنوں میں صحافت کرتے تھے اور قوم کے مسائل پر کھل کر بات کرتے تھے یہ عظیم و دلیر صحافی اپنی قلم کی مدد سے عوام میں آزادی کا شعور اُجاگر کرتے تھے لیکن آج کل کے زمانے میں ایسا بہت کم ہے۔ آج ہم وہ صحافت نہیں دیکھتے جو سو سال پہلے مسلمان صحافی کرتے تھے۔

آج کے دور میں صحافی کے قلم میں وہ طاقت نہیں ہے جو آج سے کئی سال پہلے ہوا کرتی تھی۔ وجہ یہ کہ آج کے دور میں ایک تو سوشل میڈیا نے سب کچھ تبدیل کر دیا ہے اور دوسرا ہماری نوجوان نسل نے موبائل فون کو اتنی اہمیت دی کہ انہوں نے کتاب کو زمین پر پھینک دیا اور موبائل کو جیب میں رکھا۔ تیسرا پوائنٹ یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل منفی ماڈرنزم میں اتنے آگے گئے ہیں کہ اب اخبار، میگزین سے وہ نفرت کرتے ہیں کہتے ہیں کہ یہ وقت ضائع کرتا ہے۔

شروع میں صحافت کے بارے میں کہا تھا کہ پاکستان میں جس کے ذہن میں بھی یہ سوال یا خیال آ جاۓ کہ مجھے صحافی بننا ہے تو ان کے لیے کوئی روکاوٹ نہیں ہے وہ صحافت شروع کر سکتا ہے۔ آج سے چند ماہ پہلے سوشل میڈیا گروپ میں ایک میسج موصول ہوا موصوف نے لکھا تھا کہ سب اپنے اپنے پیسے جمع کرو ورنہ خبر شائع نہیں ہوگی۔ میں نے بطور تحقیق کے موصوف سے سوال کیا یہ پیسے آپ کیوں لیتے ہو؟ موصوف نے کہا کہ میں ان لوگوں کی خبریں اپنے اخبار میں شائع کرتا ہوں۔

میں نے سوال کیا کہ آپ کو چاہیے کہ آپ ان لوگوں کو پیسے دیتے یہ آپ کے اخبار کے لیے کام کرتے ہیں آپ کو خبریں بھیجتے ہیں تو موصوف نے جواب میں کہا میں نے ان لوگوں کو پریس کارڈ دیا ہے۔ کچھ ماہ پہلے کی بات ہے بازار گیا تھا دودھ خریدنے ایک بندہ کھڑا تھا دودھ والے کو بہت فخر سے کہہ رہا تھا اور مجھے سنا رہا تھا کل کے اخبار میں پہلے صفحہ پر میں نے خبر لگائی تھی۔ موصوف نے جب پریس کارڈ کا ذکر کیا تھا تو مجھے اسی وقت اندازہ ہوا کہ یہ لوگ اس طرح عام شہریوں کو لوٹتے ہیں ان لوگوں کی اخبار کا سرکولیشن دو گلیوں تک نہیں ہوتا اور یہ لوگ صحافت کو اسی طرح اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

اس کے علاؤہ ان لوگوں کے سوشل میڈیا پر اکاؤنٹس بھی ہوتے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے بھی یہ لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں کہ ہمارے اخبار کی "سرکولیشن" کافی زیادہ ہے۔ اس کے علاؤہ اگر کچھ گفتگو قوم پر کریں تو غیر مناسب نہیں ہوگی قوم کسے کہتے ہیں؟ قوم اپنا ایک جغرافیہ رکھتی ہے اس کے علاؤہ قوم کی اپنی زبان ہوتی ہے جس میں وہ ایک دوسرے کے ساتھ غم خوشی شریک کرتے ہیں، باتیں کرتے ہیں، قوم کے اپنے رسم و رواج ہوتے ہیں، قوم کی اپنی تاریخ ہوتی ہے، قوم کی اپنی تہذیب و ثقافت ہوتی ہے یہ سب عناصر مل کر ایک قوم کو تشکیل دیتے ہیں۔

اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو پاکستان میں بہت سی اقوام آباد ہیں۔ اب بنیادی سوالات یہ ہیں کہ ایک قوم کے بچے کس طرح زندگی بسر کریں گے، کس طرح تعلیم حاصل کرینگے اور کس طرح ترقی کریں گے؟ ہر قوم کا ایک سربراہ ہوتا ہے وہ قوم کے حق میں فیصلے کرتا ہے۔ ان کی فلاح و بہبود، ترقی و خوشحالی کے بارے میں سوچتا ہے۔ اور بعد میں ایسا فیصلہ کرتا ہے جس میں سب کی خیر و برکت ہو۔

کچھ دنوں پہلے ایک ادیب کے ساتھ بیٹھا تھا انھوں نے بتایا کہ یہ تین چیزیں ایک قوم کا بنیادی حق ہے تعلیم، صحت اور انصاف جس قوم کے ساتھ یہ تینوں چیزیں ہونگی تو وہ قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوگی یعنی ایک ترقی پسند قوم ہوگی۔ انھوں نے بتایا کہ یہ تین چیزیں کیسے آتی ہے یا کس طرح پیدا ہوتی ہیں؟ انھوں نے شروع میں بتایا تھا کہ ہر قوم اپنا ایک جغرافیہ رکھتی ہے اور اسی دائرے کے اندر اگر ایک قوم پر کسی کا دباؤ نہ ہو تو وہ ترقی کر سکتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ایک قوم کے پاس اپنا پانی ہے اس سے وہ بجلی بناتی ہے تو اس بجلی سے وہ اپنی ضروریات بھی پوری کر سکتا ہے اور پڑوسیوں پر بھی فروخت کر سکتا ہے۔ اسی طریقے سے تجارت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے انھوں نے بتایا کہ ایک قوم کے پاس اپنا تیل اور گیس ہے تو وہ اسی گیس اور تیل سے اپنی ضروریات بھی پوری کر سکتا ہے اور ساتھ دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت بھی شروع کرسکتا ہے دونوں میں قوم کا فائدہ ہے۔ انھوں نے آخر میں بتایا کہ اگر ہر قوم کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ اپنے فیصلے خود کرے تب یہ ملک ترقی کرے گا ورنہ مشکل نہیں ناممکن۔

Check Also

Barish Aur Muhabbaton Ki Uraan

By Amirjan Haqqani