Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Altaf Kumail/
  4. Wajood e Zan Se Hai Tasweer e Kainat Mein Rang

Wajood e Zan Se Hai Tasweer e Kainat Mein Rang

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

دنیا بھر میں آج خواتین کا دن منایا جا رہا ہے۔ یورپ سمیت مغرب میں اس دن کومنانے کا مقصد ان خواتین کو خراج تحسین پیش کیا جانا مقصود ہے۔ جنہوں نے اپنے حقوق کے حصول میں بیش بہا قربانیاں دی ہیں اور بالآخر مغربی معاشرے کو باور کروایا کہ وہ بھی مردوں کی طرح انسان ہیں اور تمام تر حقوق کے حصول اور وسائل کے تصرف میں برابر کے حقدار ہیں۔ تاہم اسلامی دنیا کے اندر خواتین کے عالمی دن کو منانے کا تصور مختلف ہے۔

اسلام نے ماں، بیٹی بہن، اور بیوی کے روپ میں عورت کو عزت اور وقار پیدائشی طور پر بخشا ہے۔ لہذا انہیں مغربی خواتین کی طرز پر اپنے حقوق منوانے کے لئے کسی فیمینسٹ مومنٹ کی نوبت نہیں آئی۔ اسلامی نقطہ نظر سے عورت، اگر ماں ہے تو جنت، بیوی کے روپ میں راحت، بہن کی صورت میں غیرت اور بیٹی کی شکل میں رحمت ہوتی ہے۔ عورت کائنات کا وہ جز ہے جس نے تخلیق کو مکمل کیا۔ تاہم اسلام کے عورت سے متعلق اس مقام کو ابھی پوری طرح ہمارا معاشرہ سمجھنے اور عمل درآمد کرنے میں کافی حد تک ناکام ہے۔ پدر زدہ معاشرے میں تعلیم کے فقدان، فرسودہ روایات، اور قبائلی کلچر کے سبب پاکستان کی عورت آج بھی کسمپرسی کے عالم میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

تاہم وقت کیساتھ ساتھ لوگوں میں شعور آرہا ہے اور خواتین کے نجی، معاشرتی، معاشی، و سیاسی حالات بہتر ہو رہے ہیں جو کہ خوش آئند بات ہے۔ پاکستان کی ترقی و خوش حالی میں عورت کا کردار شروع دن سے کلیدی رہا ہے۔ فاطمہ جناح سے لیکر بینظیر بھٹو، عاصمہ جہانگیر اور شرمین عبید چنائی سے لیکر ارفع کریم اور ملالہ یوسف زئی تک عورت نے ہر میدان میں پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ تاہم ملک میں ابھی بھی خواتین کے حقوق اور بہتر ترقی کے وسائل فراہم کرنے سے متعلق سازگار ماحول کی اشد ضرورت ہے۔ جو یقینا ایک جہد مسلسل سے ہی ممکن ہے۔

آج بھی ہماری خواتین کے بے شمار مسائل ہیں اور بہت سے حقوق بہم پہنچانا باقی ہیں۔ یہ اسی صورت ممکن ہے، جب ہم بھی دیگر اقوام کی طرح خواتین کے جائز حقوق کے لئے میدان عمل میں آئیں بالکل ایسے ہی جیسے 1908 میں 15 ہزار امریکی خواتین دباؤ اور غلامی، کام کے طویل اوقات اور کم معاوضہ اور ووٹ کا اختیار مانگنے کے لئے نیو یارک کی سڑکوں پر نکل آئی تھی۔ان خواتین کا سلوگن Bread and roses یعنی روٹی اور پھول تھا۔ جس کا مطلب معیار زندگی اور معاشی تحفظ کو بہتر بنانا تھا۔

1908 میں بلند ہونے والی یہ بازگشت صدی گزر جانے کے بعد بھی کم نہیں ہوئی بلکہ اس کی گونج ترقی یافتہ ممالک سے نکل کر ترقی پذیر ممالک میں پہنچ چکی ہے۔پاکستان میں بھی 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن نیا عزم ولولہ اور بڑے جوش وجزبے کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ جس میں سرکاری، نیم سرکاری، این جی جیوز اور سول سوسائٹی کی سطح پر خواتین کے حق میں سمینارز، تقریبات اور ریلییاں منعقد کرواتے ہیں اور خواتین کے مسائل کی نشاندہی کرتے نظر آتے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے دنیا کے جن ملکوں نے ترقی کی ہے۔ اس میں مرد اور خواتین دونوں شریک ہوئے ہیں امریکہ برطانیہ چین جاپان اور ملائیشیا کی ترقی اور خوشحالی میں خواتین نے شاندار کر دار ادا کیا۔

مگر افسوس صد افسوس کہ پاکستان جیسے اسلامی ملک میں جہاں عورت کے تحفظ کے لیے قانون تو بہت سے بن چکے ہیں۔ جہاں عورت کے نام پہ این جیوز تو بہت سا مال بنا رہی ہیں۔ مگر ایک عام عورت آج بھی اپنے آپ کو منوانے کے لیے تگ و دو میں مصروف ہے۔ آج کی عورت تعلیم میں مردوں سے کہیں آگے ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں اُسے مردوں سے بہت کم اُجرت میں نوکری ملتی ہے۔ عورت کو نوکری کہاں ملتی ہے؟ پرائیویٹ سکول و کالجز میں پڑھی لکھی نوجوان لڑکیوں کو آسانی سے ملازمتیں مل رہی ہیں۔

ایسے ادارے جہاں تعلیم تو بہت مہنگے داموں دی جا رہی ہوتی ہے۔ مگر خواتین اساتذہ کو ایک دیہاڑی دار مزدور سے بھی کم اُجرت دی جاتی ہے۔ ایم اے ٟایم ایس سی پاس لڑکیوں کو بہت سے پرائیویٹ تعلیمی ادراوں میں پانچ سے دس ہزار تنخواہ میں بھرتی کر لیا جاتا ہے۔ جہاں تو ان کی نوکری مستقل ہوتی ہے۔ نہ انہیں تنخواہ باقاعدگی سے دی جاتی ہے۔ بہت سے نامور تعلیمی ادارے چھٹیوں میں بچوں سے تو "ٹیوشن فیس" لے لیتے ہیں۔ مگر بچاری ٹیچرز کو چھٹیوں میں ادائیگی نہیں کرتے۔ آج کی عورت کو طرح طرح سے ڈرایا جاتا ہے۔

آج بھی ہمارے پیارے پاکستان میں خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔ روزانہ خواتین کی عصمت دری کی خبریں رپورٹ ہوتی ہیں۔ 4 سے 6 جواتین یومیہ گھر کا چولہا پھٹنے کے سبب جھلس جاتی ہے۔ یہی نہیں کچھ غیر انسانی روائتیں مثلا عورت کو ونی، وٹا سٹہ، کاروکاری، قرآن سے شادی، زمین میں گاڑ دینا، کتے چھوڑ دینا، ناک کان اور دیگر اعضاء کاٹنے تک کے واقعات رونماں ہوتے ہیں۔

پاکستان نے اگر ترقی کرنی ہے تو ہمیں خواتین کو مردوں کے برابر شانہ بشانہ کھڑا کرنا ہوگا اور انہیں ترقی کے مواقع دینا ہوں گے اور ہمیں ایسی خواتین دوست پالیسیوں کو مرتب کرنا ہوگا، جن سے معاشرے میں خواتین کا مقام بحال ہو سکے اور ان کی سماجی اور معاشی مشکلات میں کمی لائی جاسکے۔

عورت کا ہر روپ معاشرے میں کلیدی کردار کا حامل ہے۔ جب تک کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی کی راہوں میں گامزن نہیں ہوگا تب تک عورت کا حصہ شامل نہ ہو۔شاعر مشرق علامہ اقبال نے عورت کو اپنے ان اشعار کے ذریعے عزت و مقام دیا یہ کہتے ہوئے کہ عورت کے تصور سے ہی کائنات میں رنگ وبو ہے۔

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں

مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں

آئیں آج اس ان ہم سب عہد کریں کہ ہم عورت کو اقبال کے تصور سے ہم آہنگ آزادی، خود مختاری، عزت، اور ترقی کے مواقع بہم پہنچائیں۔۔

Check Also

Sorry Larki Ki Umar Ziada Hai

By Amer Abbas