Thursday, 16 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Altaf Kumail/
  4. Wadi e Gultari Ki Tareekh, Seyahat Aur Saqafat

Wadi e Gultari Ki Tareekh, Seyahat Aur Saqafat

وادی گلتری کی تاریخ، سیاحت اور ثقافت

ہمالیہ کے دامن میں موجود وادی گلتری اپنے حسن و جمال کے رنگ بکھرتی رہتی ہے جو سیاح کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ وادی گلتری گلگت بلتستان کی خوبصورت ترین وادیوں میں گردانا جاتا ہے۔ جو کہ دیگر وادیوں سے قدرے مختلف اور منفرد ہے۔

وادی گلتری کہ وجہ شہرت یہاں کے رہائشیوں کی پر خلوص مہمان نوازی، پڑھے لکھیے اور باشعور نوجوان، بزرگوں کی علمی و ادبی محفلیں، بااختیار خواتین، سیاحت کے حسین مناظر کا قلب، محنت کش افراد، بلندو بالا برف پوش پہاڑ، ویسع سر سبز و شاداب میدان، شور کرتی آبشاریں، صاف شفاف قدرتی چشمے، بل کھاتی نہریں، گھنے اور قدرتی جنگلات اور خاموش دریاے شنگو یقیناً یہاں کہ منفرد و یکتا کہ عکاسی ہے۔

وادی گلتری کی تاریخ کے حوالے سے کوئی ٹھوس لٹریچر نہیں ملتا جس کی بنیاد پر تاریخی نقطہ نظر پیش کریں البتہ یہاں کے آباؤ اجداد کی اورل تاریخ (Oral History) سے کسی حد تک یا محدود انداز میں تاریخ کے خدو خال پر تحریر رقم کی جاسکتی ہے یہاں گیارہویں صدی تک کوئی آبادی موجود نہیں تھی گیارویں صدی کے اوائل میں موجودہ چلاس کے کچھ لوگ مقامی راجہ سے اختلافات کی بنیاد پر بغاوت کی اور یہاں آکے رہائش پذیر ہوئے اور یہی کے ہو کے رہ گئے۔

جس کے سبب باقاعدہ طور پر انسانی آبادی کا اجراء ہوا پھر کارگل، دراس اور استور اور کھرمنگ سے کئی باشندے نقل مکانی کے ذریعے یہاں آباد ہوتے رہے ہیں۔

بعض بزرگ یہ دعوا کرتے ہیں کہ جو بھی راجہ زیر کنٹرول باشندے (لداخ، بلتستان، گلگت) کے خلاف بغاوت کرتا یا کسی کے قتل میں یا دیگر غیر قانونی معمالات میں ملوث ہوتا تھا یہاں آ کے رہائش پذیر ہوتے تاکہ سزا سے بچ سکیں کیونکہ یہ علاقہ ہر لحاظ سے محفوظ ہے خیر یہ بات کس حد درست ہے کچھ کہہ نہیں سکتے۔۔

پندرہویں صدی میں علی شیر خان انچن (1590–1625) نے فوج کشی کی تو گلتری کو بلتستان کے ساتھ الحاق کیا اور باقاعدگی سے اپنا نمائندہ بھی تعینات کیا جو گلتری کے معمالات کو ڈیل کرتا تھے اور اس سے قبل یہاں کے شیر خان انچن کی فوج کشی سے پہلے یہاں کے مقامی لوگ بدھ مت کی پوجا کرتے تھے اور علی شیر خان انچن نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور تمام مشرف بہ اسلام ہوئے اور پاکستان کے معرض وجود میں آنے تک یہ پورا علاقہ، سکردو اور کھرمنگ اور ڈوگرہ راج کی ریاستوں کے زیرکنٹرول میں رہا۔

وادی گلتری کی آبادی تقریباً 15000 ہے جب کہ رقبہ بارہ سو کلومیٹر مربع میل کے لگ بھگ ہے وادی گلتری کے مغرب میں وادی استور، مشرق میں دراس سیکٹر جو کہ بھارت کے زیر انتظام ہے، شمال میں سکردو اور جنوب میں بھارتی زیر انتظام جموں کے مضافاتی علاقے ہیں۔

وادی گلتری سیاحت کا قلب گردانا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ یہاں سیاحوں کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے ان گنت مقامات ہیں جو کہ صحت افزا تفریحی مقامات ہیں۔ یہاں سر بفلک چوٹیاں، چشمے، نہریں، آبشاریں، لہلاتے کھیت جو وادی کے حسن میں جان ڈالتے ہیں۔

وادی کے خوبصورت مقامات جو سیاحوں کی سحر انگیزی کا موجب بن سکتے ہے جیسا کہ کارابوش، اکبر آباد، تھلی، گلتری خاص کے وسیع و عریض میدان، جگنو جھیل، علی مالک نالہ، یوڈیل نالہ، پتوتھلی داس، شوران کا بڈو داس، چملونگ کی ڈھلوان نما شکل، فرنشاٹ کے خوبصورت ترین نالیں، بونیال کا لوٹو، پورک، آٹھیھٹ، چھچھری، ذی موڈ، یودائیو، مجننی، میار کنکھٹ، یودوی جھیل، کونر کا ہٹو، لوٹو اکبر گن نالا، تھانوٹ اور پھلٹکس کی جھیلیں، وسیع تر میدان اور۔ لہلاتے کھیت وغیرہ جو کہ مقامی اور بین الاقوامی سیاحوں کی نظروں اوجھل ہے اگر سرکاری سطح پر تمام سیاحوں کے لیے اوپن کیجائے تو سیاحتی ہب (Hub) بن سکتا ہے اور ملکی و مقامی معیشت کسی حد تک سہارا دیا جاسکتا ہے۔

وادی گلتری کی سحر انگیزی قابل دید ہے یہاں ہر موسم میں الگ طرز کا ماحول جنم لیتا ہے مارچ سے اگست تک ہر طرف سر سبز و شاداب کے رنگ میں رنگتی ہے۔ ستمبر سے لیکر دسمبر تک خزاں کے موسم میں خزاں کے رنگ میں جاذیبت بکھرتی ہے اور دسمبر سے مارچ تک برف کی سفید چادر کے غلاف میں نظر آتی ہے جس کے سبب پورا سیزن نرالہ اور منفرد نظر آتا ہے۔

وادی کے رہائشیوں کا ذریعہ معاش گلہ بانی، زراعت، مال مویشی ہے اور انہیں ذرائع سے ہی بسر اوقات ممکن ہو پاتی ہے جب یہاں کے بہت سے گھرانوں کے بیشتر فراد سرکاری ملازمت سے جڑے ہوئے ہیں وادی کے رہائشیوں کی کثیر تعداد ہجرت کرگئے جو کہ سکردو، گلگت اور کراچی میں مقیم ہیں اور ہر سال جون اور جولائی کے مہینے میں کثیر تعداد میں وادی گلتری کا رخ کرتے ہیں جس کے سبب رونقیں بحال ہوتی ہے اور ان دو ماہ میں مقامی سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔

وادی گلتری کے باشندے آریائی نسل کے ہے یہاں شینا اور بلتی دنوں زبانیں بولی جاتی ہے۔ وادی گلتری کی ثقافت بھی منفرد ہے یہاں ہر مختلف تہواریں بڑی جوش و خروش سے مناتے ہیں ثقافتی رنگارنگی الگ سماں ہوتا ہے۔

دسمبر کے مہینے میں داباکیو یانسالو کا تہوار ہوتا ہے اس تہوار کی عمدگی یہ ہے کہ پورے گاؤں کے لوگ ہر سال بھیڑ، بکری بیل گائے، ذو ذبح کرکے گوشت محفوظ رکھتے ہیں اور حسب ضرورت استعمال کرتے ہیں گوشت پکانے کے لیے ایک خاص قسم کا برتن استعمال کرتے ہیں جسے مقامی زبان میں بلوس کہا جاتا ہے اس برتن کی خاصیت یہ ہے کہ اس کے بنانے میں خاص قسم کا پھتر اور سخت نما لکڑی کا استعمال ہوتا ہے۔ اور ہر اہل محلہ کو دعوت کرتے ہیں اور ضیافت کا بھرپور انتظام ہوتا ہے۔

اکیس مارچ کو نوروز کا دن منایا جاتا ہے جس کا بنیادی مقصد بہار کی آمد کے حوالے سے ہیں اس دن مختلف نوعیت کے مقامی کھانوں کا اہتمام ہوتا ہے اور مخلتف کھیلوں کی ٹورنامنٹ منعقد کیے جاتے ہیں۔

اسی طرح عید الضحی، عید الفطر، عید میلادالنبی، عید غدیر دیگر حصوں کی طرح یہاں بھی مذہبی جوش وجذبے کیساتھ منایا جاتا ہے مساجد، امام بارگاہوں کو خصوصی طور پر سجایا جاتا ہے ہر طرف نذرو نیاز کا اہتمام ہوتا ہے اور دعائیہ تقریبات کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔

وادی گلتری جغرافیائی اور دفاعی لحاظ سے بڑی اہمیت حاصل ہے لیکن اتنی اہمیت کے حامل وادی کو نظر انداز کیا جارہا ہے قدرت کے انمول خزانے۔ اپنے سینوں میں سمیٹے وادی پر توجہ دی جائے تو سونے کی جڑیاں ثابت ہوسکتی ہے لیکن بدقسمتی سے وادی گلتری کئی دہائیوں سے حکومتی عدم توجہی کا شکار ہے اب بھی وقت ہے کہ کھولے دل سے نئی طرز کی پالیسی اختیار کرکے وادی کو سیاحتی ہب بنایا جاسکتا ہے اور مجموعی صورتحال میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔

Check Also

Kuch Nayab Heeray

By Haris Masood