Thursday, 16 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Altaf Kumail
  4. Islam Aur Hamara Mazhabi Tabqa

Islam Aur Hamara Mazhabi Tabqa

اسلام اور ہمارا مذہبی طبقہ

دین اسلام اپنے پیروکاروں کو امن، ہم آہنگی، بھائی چارگی اور محبت کا درس دیتا ہے۔ قرآن مجید میں اسلام کے معانی امن کے ہی ہیں۔ خالق کائنات، رب دو جہان نے خلقت انسانیت کے مقصد کو محبت اور اطاعت الاہی میں پنہا رکھا ہے۔

تاہم ان دنوں ہمارا سماج جہاں زندگی کے دیگر شعبوں میں تنزلی کی جانب گامزن ہے وہی فکری و اخلاقی طور پر بھی بانجھ پن کا شکار ہے۔ عزت باہمی احترام، قوت برداشت جیسے انسانی جزبات اپ معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ خاص کر مزہبی طبقہ جسکا بنیادی کام حضور ﷺ کی سیرت پاک اور قرآنی تعلیمات کی روشنی میں لوگوں کے دلوں کو جوڑنا ہے وہ بد قسمتی سے فساد فی الارض کا مرتکب ہو رہے ہیں۔

اپنی انا ضد، خود پسندی، سستی شہرت، اور داد وصول کرنے اور محض پاور شو کے چکر میں یہ بھول چکے ہیں کہ انکی جزباتی و منافرت پر مبنی تقاریر خطے کو کو منافرت کی آگ میں جھونک رہی ہیں۔ المیہ دیکھے انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کن کے اشاروں پر ناچ رہے ہوتے ہیں۔ ڈگڈگی پر بندر کی طرح ناچنے کا ہنر ہمیشہ اسی طبقے کو ہی کیوں آتا ہے۔ یہ بھی ایک تحقیق طلب معاملہ ہے۔

ہمارے سماج کے سب علما نہیں مگر ایک اچھی تعداد میں نیم ملا ہیں جو سادہ لوح عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ ان کی صحیح رہنمائی نہیں کرتے اور انہیں غلط سمت میں لے جاتے ہیں جس کے باعث پورا سماج لپیٹ میں آتا ہے جس کی واضح مثال گلگت بلتستان میں گزشتہ کئی روز سے مسلکی بنیادوں پر نفرت انگیز رویے ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان میں فرقہ واریت پھیلانے والے ان نیم ملاوں کو در حقیقت اسلام کی ٹھیک سے سمجھ نہیں، مگر امام بنے بیٹھے ہیں۔پھر سطحی ذہنیت کے یہی لوگ اسلام کے نام پر شدت پسندی اور مذہبی منافرت کو ہوا دیتے ہیں اور اس جانب سماج کو دھکیل دیتے ہیں جس سے معاشرے کا امن تہہ و بالا ہوجاتا ہے۔

نیم ملا مسلکی اختلاف اور متنازعہ واقعات کو چوک چوراہوں میں ڈسکس کرتے ہیں۔ ان کی تحقیق اتنی محدود ہے کہ کہ دوسرے مسلک کا لٹریچر پڑھنے کی جسارت نہیں کرتیں اور یہاں تک ایسے ملا بھی ہے جنہوں نے اپنے مسلک کے ہی لٹریچر کو پڑھنے کی کوشش بھی نہیں کی اور تقاریر کا سہارا لیکر سنی سنائی باتوں پر اتفاق کرکے اور ان حساس واقعات کو عوامی محفلوں میں گفتگو کرتے ہیں۔

اس لیے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ کی ہمارے سماج کا یہ طبقہ تحقیق اور ترویج میں کتنا پست ہے اور پھر یہی طبقہ اپنے مفادات کی آڑ میں پورے سماج کو اشتعال انگیزی کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کی تہذیب یافتہ اقوام نے مسلکی اختلافات کو علمی سرکل میں رہ کر بہتر کرنے کی کوشش کیں اور کامیاب بھی ہوئے۔ جیسا کہ یورپ نے 14 ویں اور 16 ویں صدی میں Italian Renaissance کے ذریعے مذہب اور کیلرجیز کو ریاستی اور سماجی معاملات سے الگ کرکے ایک لبرل نظام کا ڈھانچہ پیش کیا اور پھر 1648 میں Treaty of Westphalia کے ذریعے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کیا اور دنیا کو صنعتی انقلاب کے ذریعے خوشحالی اور ترقی کی راہ پر گامزن کیا اور آج یورپ ہر شعبے میں خود کفیل اور ول ڈویلپ ہے۔

ایسے حقائق کو جانتے ہوئے راقم گلگت بلتستان کے باشعور نوجوانوں سے گزارش ہے کہ ہم سب کو گلگت بلتستان کے اصلی و حقیقی مسائل کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جیسا معیاری تعلیم، معیاری صحت، صاف پانی کی عدم فراہمی، انٹرنیٹ کی عدم دستیابی، بے روزگاری، اور درجنوں بنیادی مسائل ہے جن کا حل تلاش کرنے اور یکجا ہوکر ریاست سے ڈیمانڈ کرنے کی سعی و کوشش کریں تاکہ گلگت بلتستان کی دہلیز میں مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل ہوسکیں۔

اور اپنے آنے والے جنریشن کو بہتر مستقبل دینے کے لیے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ چل کر سائنسی اور علمی میدان میں لوہا منوانے کے لیے جدو جہد کریں اور اپنا بہتر مستقبل کی تلاش کریں اور مذہبی منافرت پھیلانے والے عناصر کی حوصلہ شکنی کرکے سماج میں امن و آشتی کا پیغام دیں۔

تمام باشعور اور پڑھے لکھے علماء سے گزارش ہے کہ مذہبی اختلاف کو اپنے عبادت خانوں کی حد تک محدود رکھنے کے لیے شعوری کردار ادا کریں اور ایسے حساس واقعات کو علمی و تحقیقی انداز میں تصحیح کریں تاکہ امن و سکون قائم ہو۔

Check Also

Parliament Ki Ajnabi Imarat

By Nusrat Javed