Saturday, 21 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ali Shan Mughal
  4. Taqdeer Aur Tadbeer (2)

Taqdeer Aur Tadbeer (2)

تقدیر اور تدبیر

خیر تیاری کے لئے دی گئی ایک ہفتے کی مہلت کا آخری دن تھا۔ اگلے دن اسکول میں بڑا میدان لگنے والا تھا۔ میں اسکول نہ جانے کا ارادہ تو کر ہی چُکا تھا اب لگا چھٹی کے لئے تدبیر کرنے۔ اپنے ذہن میں ہی مُختلف بیماریوں کی ایک فہرست تیار کی۔ پھر ان میں سے ایسی بیماریوں کے نام چھانٹی کیے، جو کسی بھی تندرست و توانا اِنسان کو انتہائی کم وقت میں لگ سکتی ہیں۔ المختصر میں نے " ہیضے " کو بطورِ بہانا موزوں سمجھا اور کتابوں سے بے پرواہ ہو کر سو گیا۔ یہاں میرے لیے فائدہ مند بات یہ تھی کہ میری شفیق والدہ کل کے ہونے والے امتحان سے قطعی طور لا علم تھیں۔ خیر صبح اٹھتے ہی میں نے والدہ سے اچانک پیٹ درد کی شکایت کر دی اور دیکھتے ہی دیکھتے میرا یہ درد برداشت سے باہر ہوتا گیا۔ والدہ نے بہت حربے کیے لیکِن میری شکایت برقرار رہی۔ یُوں ایک گھنٹہ کی طویل مشقّت کے بعد مجھے اسکول سے چھٹی کی اجازت مل گئی۔ لیکن اپنی بیماری کی تصدیق کے لیے مجھے آج کا سارا دن بستر پر ہی گزارنا تھا۔ یہ سب اتنی آسانی سے ہوتا دیکھ کر میں اندر ہی اندر بہت خوش ہو رہا تھا کہ اِسی دوران والدہ کی آواز آئی " بیٹا! تمہارے اسکول سے کال ہے۔ تمہارے سر کِسی امتحان کے سلسلے میں تمہیں اسکول بلاتے ہیں " اب ان کو یہ کون بتائے کہ اسی امتحان کے سبب تو میں نے برسوں کی ریت کو توڑا ہے۔ خیر ایک لمحے کے لیے تو میں اس کال کو نظر انداز کر ہی چکا تھا لیکن دوسرے ہی لمحے فون پر والد صاحب کی کال موصول ہوئی، اُن کے لہجے میں ناراضی اور آواز میں شدید غصه تھا، سختی کرتے ہوئے مجھے جلد از جلد اسکول پہنچنے کی ہدایت کی۔ میں جیسے دانت بھینچ کر رہ گیا، جس حال میں تھا اُسی حال میں اُٹھا اور بغیر کسی سے کوئی بات کیے اسکول کی جانب چل دیا۔ گویا اپنے تمام تر حربے استعمال کرنے کے باوجود ہار جانے والا انسان اپنی شکست کا بوجھ کندھوں پر اٹھائے ہوئے بوجھل قدموں سے چل رہا ہو۔

اسکول کے داخلی دروازے پر پہنچنے تک امتحان شروع ہوئے بیس منٹ گزر چکے تھے، کمرا امتحان تک پہنچنے اور اپنا رول نمبر ڈھونڈنے میں مزید پانچ منٹ ضائع ہو گئے۔ ضائع بھی کیا ہونا تھا، ضائع تو وہ وقت ہو، جو اہم ہو۔ اور پھر میں تو یہ دو گھنٹے اپنی زندگی سے نکال ہی چکا تھا جو جبراً میری زندگی میں دوبارہ شامل کر دیے گئے تھے۔ اب تو صرف امداد غیبی پر ہی تکیہ تھا، میں ان تمام باتوں کو بھولتے ہوئے جلدی سے کمرا امتحان میں داخل ہوا، ممتحن سے سوالیہ پرچہ لیا، ایک نظر دیکھنے کے بعد فوراً اسے حل کرنا شروع کر دیا۔ اب کی بار ہاتھوں کے لکھنے کی رفتار دماغ کے لکھوانے سے کہیں زیادہ تھی۔ تیاری تو تھی نہیں، جو پہلے سے پڑھ رکھا تھا اُسی کے مطابق پرچہ حل کیے جا رہا تھا۔ پھر اگلا ڈیڑھ گھنٹہ لکھنے میں ایسا مگن ہوا کہ دُنیا و ما فیھا سے بے خبر۔ دیا گیا وقت ختم ہونے سے بھی پانچ منٹ پہلے میرا کام ختم ہو چکا تھا جبکہ میرے باقی دوست آخری منٹ تک لکھنے میں مصروف تھے۔ میں نے سوچوں میں گم کمرا امتحان چھوڑا اور بغیر کسی سے ملے گھر واپس آ گیا۔ یہ سب اتنا جلدی ہوا کہ سنبھلنے تو دور مجھے سمجھنے کا بھی موقع نہ ملا۔

اب سارے دوستوں اور اساتذہ کو اس بات کا شدت سے انتظار تھا کہ رزلٹ کب آئے اور مجھے اس بات کی خوشی کہ کسی نہ کسی طرح یہ سلسلہ ختم تو ہوا۔ دو دن گزرے، تیسرے دن ہماری کارکردگی سامنے آنا تھی، چونکہ اس دفعہ مقابلہ سخت اور حالات کِسی حد تک موافق تھے اِس لیے نتیجے کے روز سب کا جوش دیدنی تھا۔ خیر وہ وقت بھی آن پہنچا جس کا سب کو سوائے میرے بڑی بے صبری سے انتظار تھا، سر کلاس میں داخل ہوئے اور آتے ہی مجھے شاباشی دینے لگے، ساتھ ہی سب دوست بھی فرط مسرّت سے جھوم اٹھے۔ حیرانی کے باوجود وجہ پوچھنے کی ضرورت مجھے ِاس لیے محسوس نہ ہوئی کہ میرے دوستوں کے چہروں اور بالخصوص سر کی آنکھوں سے میری کامیابی کی جھلک روزِ روشن کی طرح عیاں تھی۔ اپنے آپ کو بڑا طرّم خان اور افلاطون سمجھنے والے ہمارے تجربہ کار حریف ایک ہی جھٹکے میں زیر ہو چکے تھے اور وہ جھٹکا میرا نہیں تقدیر کا تھا۔ بمشکل پاس ہونے والے پیپر سے پوزیشن تک کے سفر میں محنت اور مہارت کا کوئی عمل دخل نہ تھا، جو بھی تھا میرے ماں باپ کی دُعا کی بدولت تھا جو انہوں نے مجھے گھر سے رخصت کرتے وقت چُپکے سے کی تھی، يا پھر اُس فرمانبرداری کا انعام تھا جس کا مظاہرہ میں نے بڑوں کے کہنے پر تیاری نہ ہوتے ہوئے بھی امتحان میں بیٹھ کر کیا تھا، یا پھر اساتذہ کی اُن اُمیدوں کا پاس تھا جو انہوں نے مجھ سے وابستہ کر رکھی تھیں، یا پھر اُس عَرضی کی شنوائی تھی جو میں نے کمرا امتحان میں داخل ہوتے ہوئے اس ربّ کی بارگاہ میں ڈالی تھی، یا پھر ان تمام دعاؤں کا اثر تھا جو میں نے جانے انجانے میں کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی سے لی تھیں۔ بہر کیف " تقدیر اور تدبیر" کی پنجہ آزمائی تھی، تدبیر ناکام ٹھہری، تقدیر کامیاب قرار پائی کیونکہ اس کے پیچھے دُعا کارفرما تھی اور وہ بھی ایک ماں کی "ناقابل مسترد دُعا" تو پھر کاتبِ تقدیر کیسے نہ سنتا؟ ؟

بتانا یہ مقصود تھا کہ تقدیر نے جب جب پلٹا کھایا تدبیر کرنے والے تب تب اوندھے منہ گرے، یہ بات تاریخ کے اوراق میں قید واقعات سے سر بمہر ہے!!! تقدیر اور تدبیر کا جب بھی سامنا ہوا، تقدیر ہمیشہ غالب رہی کیونکہ اِسے ازل سے ہی " دُعا" کی حمایت حاصل رہی ہے۔ چنانچہ ہمیں دعا لینے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہیے، یہ جب جیسے اور جہاں سے ملے لے لینی چاہیے۔ ہمیں کاہلی کو پس پشت ڈال کر اپنی عقل اور بساط کے مطابق تدبیر بھی کرنی چاہیے مگر پھر معاملہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ زندگی کے اکثر امور تدبیر کے دائرہ اختیار سے پرے قسمت کے کارخانے میں مقفّل ہوتے ہیں، جو قفل یا تو دُعا سے کھل سکتے ہیں یا پھر صحیح وقت پر۔ ہر دو صورتوں میں انسان کا کچھ اختیار نہیں۔ بعض اوقات لاکھ سر پٹکنے اور اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے کے باوجود ناکامی ہی ہمارا مقدّر ٹھہرتی ہے، ایسی صورت میں ہمیں تدبیر کی حدود سے باہر موجود تقدیر نامی شے پر تکیہ کرناچاہیے۔ تدبیر کی ناکامی "صبر" کو جنم دیتی ہے اور صبر "خدا کی نصرت" کو، پھر جسے خُدا کی نصرت حاصل ہو جائے اُس کے تو وارے نیارے ہو جاتے ہیں، وہ اُسے ایسے نوازتا ہے کہ اُس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ افلاک اس کی بلندی پر رشک کرتے ہیں، صورتِ خورشید چمکنے والے اس کی چمک سے متاثر نظر آتے ہیں اور پھر " انجم" تک اس کے عروج سے سہم جاتے ہیں، کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مھہ کامل نہ بن جائے۔

Check Also

The Prime Ministers

By Rauf Klasra