Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ali Shan Mughal
  4. Maflooj Jamhuriat Aur Siyasi Noora Kushti

Maflooj Jamhuriat Aur Siyasi Noora Kushti

مفلوج جمہوریت اور سیاسی نُورا کُشتی

پاکستان میں جمہوریت ایک بار پھر حالات کے رحم وکرم پر ہے۔ ایوب سے لے کر مشرف تک تینوں آمروں نے محض اقتدار کی خاطر منتخب عوامی نمائندوں کو برطرف کرکے جمہوریت پر شب خون مارا۔ پاکستانی سیاست میں حصولِ اقتدار کی جنگ ہمیشہ سے ہی جاری رہی ہے۔ اس امر سے قطع نظر کہ منتخب ہے یا ڈکٹیٹر، اِس ملک میں ہر حکمران نے جمہوریت کی راہ میں روڑے اٹکانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ یہاں تک کہ آمرانہ حکومت کے خلاف جدوجہد کرنے والے اور جمہوریت کے سفیر کے طور پر پہنچانے جانے والے ذوالفقار علی بھٹو بھی حکومت میں آنے کے بعد اپنے سیاسی حریفوں کو مساوی اور جمہوری حقوق دینے سے گریزاں تھے۔

قیامِ پاکستان کے صرف گیارہ سال بعد ہی 1958 میں جنرل ایوب نے پہلی فوجی بغاوت کرکے ایک جمہوری ملک میں آمرانہ طرزِ حکومت کی بُنیاد رکھی۔ ستر کی دہائی کے اواخر میں جنرل ضیاء الحق نے جمہوریت کا گلا گھونٹتے ہوئے حکومتی ایوانوں پر قبضہ کیا اور اپنی حکمرانی کی ساکھ قائم رکھنے کے لیے چُنیدہ اِسلام کو نافذ کرنے کی کوشش کی۔ یہ پہلا موقع تھا جب پاکستانی سیاست میں مذہب کارڈ کا برملا استعمال کیا گیا۔ مزید برآں کہ اپنے پیش رو ایوب کی پیروی کرتے ہوئے ضیاء نے بھی ملک بھر میں ہر قسم کی جمہوری سرگرمیاں معطل کر دیں۔ لڑکھڑاتی ڈگمگاتی جمہوریت کو چلتے ہوئے ابھی دس برس ہی گزرے تھے کہ جنرل پرویز مشرف نے نئی صدی کا استقبال ایک مرتبہ پھر آئینِ پاکستان کو معطل کرکے کیا۔ اپنے آمرانہ دورِ حکومت کو مزید طول دینے کے لیے اُس نے سر توڑ کوششیں کیں لیکن جمہوریت نے اپنے ساتھ ہونے والے ظُلم کا انتقام لیا اور آمریت کے سلسلے کی آخری کڑی مشرف کوحکومتی ایوانوں سے نکال باہر کیا۔

2008 کے بعد سے پاکستان کے سیاسی اعوامل میں غیر جمہوری قوتوں کا براہ راست کوئی عمل دخل نہیں رہا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آئندہ بھی کبھی ایسا نہیں ہوگا۔ بدقسمتی سے پاکستان کے پاس امکانات کا ایک وسیع میدان موجود ہے جہاں تماشائی کسی بھی وقت کسی بھی غیر معمولی واقعے کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ ہماری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جوکہ اُس سے پہلے کبھی رونما نہیں ہوئے تھے۔

کامیاب جمہوری عمل کے لیے ضروری ہے کہ تمام ریاستی ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں۔ دوسروں کے کاموں میں مداخلت کرنا تصادم کو جنم دیتا ہے۔ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ حکومت کے تین بازو ہیں۔ تینوں کو آئینی حدود میں رہتے ہوئے ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ اگرچہ اِن کا اختیارات اپنے اپنے دائرہ کار میں محدود ہیں کیونکہ مطلق طاقت مطلقاً کرپشن کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے لیکن کبھی بھی ایک ادارے کو دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ جمہوریت آزادی کا ہی تو دوسرا نام ہے، عمل کرنے کی آزادی، بولنے کی آزادی اور سب سے بڑھ کر آزادیٔ اظہارِ رائے۔

جمہوریت کے فروغ میں"سماجی شعور" نہایت کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ آزادی کی سات دہایاں گزر جانے کے بعد بھی اعوام اتنے با شعور نہیں کہ اپنا صحیح نمائندہ منتخب کر سکیں اور یہی حقیقت ہر آمر کو جمہوریت کے خلاف اقدامات کرنے کا جواز فراہم کرتی رہی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے ملک کی نصف آبادی انتخابی عمل میں حصہ لینے کی زحمت ہی نہیں کرتی۔ شاید ان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ وہ ملکی سیاست میں دلچسپی لیں۔ یہ سب ناقص سماجی شعور کا نتیجہ ہے۔ ایک جمہوری ریاست میں اعوام کو کم از کم اتنا شعور تو ہونا چاہیے کہ وہ اپنے حقِ رائے دہی کا صحیح اور معقول استعمال کر سکیں۔ کسی بھی ملک کے لیے یہ سِول سوسائٹی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اعوام کو اُن کے شہری حقوق اور فرائض سے آگاہ کرے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں سول سوسائٹی کی ترویج کو کبھی اِتنی اہمیت ہی نہیں دی گئی۔

ادارہ جاتی تصادم، نسلی تفاوت، سماجی شعور کا فقدان اور لسانی امتیازات جمہوریت کی بقا کو لاحق چند خطرات ہیں۔ اِن تمام مسائل کو ترجیحی بُنیادوں پر نمٹایا جانا چاہیے کیونکہ اِن میں سے ہر ایک جمہوری نظام میں بگاڑ پیدا کرنے کی خاصی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان اِس وقت یا مستقبل قریب میں کسی بھی بڑے بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

عصرِ حاضر میں ریاستیں جمہوریت کے ذریعے سانس لیتی ہیں کیونکہ جمہوریت کسی بھی ریاست کی بقاء کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ پاکستان میں منتخب اور غیر منتخب قوتوں کے درمیان جاری نُورا کُشتی آمریت سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ ہمارے ملک میں جمہوریت کی مفلوج شکل رائج ہے جو بالآخر ستائے ہوئے لوگوں کے ذہنوں میں نظام کے خلاف بغاوت کے بیج بو دے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِس مفلوج جمہوریت کی بہتری کے تناظر میں اب تک کیا اقدامات کیےگئے ہیں۔ ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو چاہیے کہ وہ میثاقِ جمہوریت کے تقاضوں کو پورا کریں تاکہ اِس مملکتِ خداداد کو بندگانِ خدا کے رہنے کے قابل بنایا جا سکے۔ اِس امر میں کوئی شک نہیں کہ دَہائیوں سے جاری مسلسل غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت اور سیاسی انتہا پسندی جمہوریت کو دیمک کی طرح کھائے جا رہی ہے لیکن پھر بھی جمہوریت ہر قسم کے بگاڑ کا بہترین علاج ہے۔

Check Also

Samajhdar Hukumran

By Muhammad Zeashan Butt