پاکستان کا مقدمہ… چند اچھے مثبت پہلو
پاکستان کی ریاست، حکومت اور معاشرے کے تناظر میں ہمیں کئی طرح کے داخلی اور خارجی بحران نظر آتے ہیں۔ بیشتر بحران ہمارے اپنے پید ا کردہ بھی ہیں، مگر ہم سازشی تھیوریوں کی بنیاد پر خود کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
پچھلی دویا تین دہائیوں میں ہماری ریاست کئی طرح کے بڑے چیلنجز سے نمٹنے کی کوشش کررہی ہے۔ ان چیلنجز میں داخلی محاذ پر انتہا پسندی، سیاسی اورمعاشی عدم، ادارہ جاتی کمزوری اور عوام میں پائی جانے والی غیر یقینی او رمایوسی شامل ہے۔ آج کی دنیا میں کامیابی تصورات کی ہوتی ہے یعنی دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچتی ہے۔ اسی بنیاد پر ریاستوں کی اچھائی یا خرابیوں کی بنیاد پردرجہ بندی کرکے عالمی دنیا اور رائے عامہ ہمیں پرکھتی ہے۔
پچھلی چند دہائیوں میں ہمارا داخلی مقدمہ کافی کمزور رہا ہے اور دنیا میں ہمارے اقدامات کو شک کی بنیاد پر دیکھا جاتا رہا ہے، خصوصاً دہشت گردی سے جڑے اقدامات پر ہمیں عالمی سطح پر سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ فنائشل ایکشن ٹاسک فورس کی سطح پر منی لانڈرنگ اور فنائشل ٹیررازم میں ہمارا گرے لسٹ میں نام ہے۔ بھارت کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان کو ریلیف نہ مل سکے۔ لیکن اس کے باوجود ہم نے سفارتی محاذپر بڑی کامیابیا ں حاصل کی ہیں۔ ہم نے بھارت کو سفارتی محاذ پر پسپائی دی ہے۔ پاک بھارت تعلقات، کشمیر، دہشت گردی یا ایف اے ٹی ایف کے تناظر میں پاکستان کے نقطہ نظر کو خاصی پذیرائی ملی ہے۔
کرتار پور راہدری کھولنے پر پاکستان کے مثبت پیغام کو ہر سطح پر پذیرائی دی گئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر پاکستان نے بھارت کو دفاعی پوزیشن پر کھڑا کردیا ہے اور عالمی سطح پر کوئی بھی ملک بھارت کے موقف کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔
اسی طرح جس انداز سے برطانیہ اور امریکا نے اپنے شہریوں کو سفری اجازت دی ہے کہ پاکستان اب محفوظ ملک ہے او راسی طرح یو این او کی جانب سے اپنے ملازمین کے لیے لاہو راو راسلام آباد کو محفوظ شہر کا درجہ دیا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان ماضی کے مقابلے میں کافی حد تک مثبت طور پر تبدیل ہوا ہے۔ سیاحت کے حوالے سے پاکستان نے چند سالوں میں بہت ترقی کی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا پانچ بڑے حکمرانوں کی فہرست میں شامل ہونا جو موسمیاتی تبدیلی کے سفیر کے طور پر دنیا میں کام کررہے ہیں وہ بھی ہماری بڑی کامیابی ہے۔
پاکستان کی ریاست، حکومت، اداروں اور معاشرے کو ہر سطح پر داد دینی ہوگی کہ ہم نے بڑی یکسوئی کے ساتھ انتہا پسندی او ردہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جو موثر اقدامات کیے مثبت ثابت ہوئے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان، پیغام پاکستان، سائبر کرائم، انٹیلی جنس سسٹم میں بہتری، کالعدم تنظیموں پر پابندی، دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی، اسلحہ کی بنیاد پر طاقت کا استعمال، نفرت یا اشتعال انگیزی کے خاتمہ، فرقہ واریت جیسے معاملات میں اہم پیش رفت کی ہے۔ یہ کہنا کہ دہشت گردی ختم ہوگئی ہے درست نہیں، لیکن کافی حد تک قابو پایا گیا ہے۔ اب اصل چیلنج علمی و فکری بنیادوں پر امن اور رواداری کے بیانیہ کو آگے بڑھانا ہے۔
بلیک لسٹ ہونے کا جو خطرہ موجود تھا اس پر بھی کافی حد تک قابو پالیا گیا ہے۔ حالیہ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں پاکستانی اقدامات کو کافی سراہا گیا ہے اورکہا گیا ہے کہ پاکستان بہتری کی طرف گامزن ہے اورامید ہے کہ بہت جلد ہم اس گرے لسٹ سے بھی نکل سکیں گے او راس میں چین، ترکی، ملائیشیا او رامریکا کی حمایت پاکستان کے موقف کی جیت ہے۔ پاکستان میں بین الااقوامی کرکٹ کی بحالی ظاہر کرتی ہے ہم بڑی تیزی سے بہتری کی جانب گامزن ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا دورہ پاکستان، ترکی، یو اے ای، سعودی عرب کے سربراہوں کا دورہ پاکستان اور پاکستانی موقف کی حمایت سمیت امن کی پاکستانی کی کوششوں کو سراہنا بڑی کامیابی ہے۔
افغان حکومت، افغان طالبان اورامریکا کے درمیان پاکستان کے کردار کو عالمی سطح پر کافی پذیرائی ملی ہے۔ دنیا سمجھتی ہے جو امن معاہدہ ہونے والا ہے یہ پاکستان کی مدد اورحمایت کے بغیر ممکن نہ تھا اوراس معاہدہ پر عملدرآمد کے عمل میں بھی پاکستان کے کردار کو بڑے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ امریکا، ایران، ایران سعودی عرب کشیدگی میں امن پسندی کے کردار کو بھی کافی پذیرائی ملی ہے۔ پاکستان کی سیاسی او رعسکری قیادت کا باہمی تعلق اور موقف پر اتفاق رائے نے بھی عالمی سفارت کاری یا ڈپلومیسی کے محاذ پر ہمیں کافی فائدہ دیا ہے اورماضی کے مقابلے میں اب کافی بہتری نظر آتی ہے۔
یہ تمام مثبت خبریں پاکستان کے داخلی او رخارجی سطح پر سافٹ امیج کو ظاہر کرتی ہیں اور دنیا کو باور کرواتی ہیں کہ پاکستان کے بارے میں پہلے سے موجود منفی تاثرات یا تصوارت کو اب بدلنا ہوگا۔ یہ ابتدائی سطح کی کامیابیاں ہیں لیکن اس پر بہت زیادہ خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی بجائے ہمیں بطور ریاست، حکومت اور اداروں سمیت معاشرے کی سطح پر ایک بڑی جنگ لڑنی ہے۔ پاکستان کو خود کو ایک محفوظ، پرامن اور جمہوری پسند معاشرے کی طرف جانے کے لیے بہت کچھ کرنا ہے۔ لیکن پہلی کنجی یہ ہے کہ ہماری ریاست، حکومت داخلی سیاسی اور معاشی استحکام کو بنیاد بناکر ان سفارتی کامیابیوں سے بہت کچھ مثبت طو رپر سمیٹ سکتی ہے، جوپاکستان کی ضرورت ہے۔