میکس طیارے نہیں میکس سوچ بدلیں
ولیم ایڈورڈ بوئنگ 1881 میں مشی گن میں پیدا ہوا، والد جرمن تھا اور والدہ آسٹرین تھی، والد جنگلات کا ٹھیکیدار تھا، وہ جنگل خریدتا تھا، درخت کٹواتا تھا اور لکڑی فروخت کر دیتا تھا، ولیم آٹھ سال کی عمر میں یتیم ہو گیا، مشکل سے تعلیم مکمل کی اور والد کا کاروبار سنبھال لیا، وہ کشتی رانی اور سمندروں میں گھومنے کا شوقین تھا، اس نے لگژری کشتیاں ڈیزائن کرنا شروع کر دیں، زندگی مزے سے گزرنے لگی۔
1909میں وہ سیاٹل گیا، زندگی میں پہلی مرتبہ ہوائی جہاز دیکھا اور اس پر عاشق ہو گیا، مارٹن کمپنی اس وقت رائٹ برادرز کے ڈیزائن کردہ جہاز بناتی تھی، ولیم ایڈورڈ نے دو نشستوں کا مارٹن جہاز خرید لیا، ہوا بازی کی صنعت ابھی ابتدائی مراحل میں تھی چنانچہ ولیم ایڈورڈ کے جہاز کو حادثہ پیش آگیا، ولیم نے مارٹن کمپنی سے رابطہ کیا، کمپنی نے بتایا اسپیئر پارٹس کی کمی ہے۔
ہم فوری طور پرآپ کا جہاز مرمت نہیں کر سکیں گے، ولیم ایڈورڈ کو یہ جواب برا لگا چنانچہ اس نے دوست کمانڈر جارج کونریڈ سے کہا "کمانڈر ہم کشتیاں بنا لیتے ہیں، ہم اگر کوشش کریں تو ہم مارٹن سے بہتر اور اچھے جہاز بھی بنا سکتے ہیں" میں کہانی آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو یہ بتاتا چلوں دنیا کے تمام کامیاب بزنس گروپس کا آغاز دوستوں سے ہوا، بل گیٹس کے ذہن میں آئیڈیا آیا، اس نے اپنے دوست پال ایلن سے ذکر کیا، اس نے آئیڈیا کی تعریف کی اور مائیکرو سافٹ وجود میں آگئی۔
اسٹیوجابز کے ذہن میں ٹچ اسکرین کا آئیڈیا آیا، اس نے اپنے دو دوستوں اسٹیووزنائیک اور رونلڈ وینی سے ذکر کیا، دونوں نے آئیڈیا سراہا اور ایپل کمپنی نے جنم لے لیا، آپ دنیا کی کسی بھی بڑی کمپنی کے ماضی میں جھانک لیں آپ کو اس کی بنیاد میں کوئی نہ کوئی دوست ملے گا، آپ اسی طرح ناکام لوگوں کے ناکام منصوبوں کی تاریخ بھی کھنگال لیں۔
آپ کو اس کی جڑ میں بھی کوئی نہ کوئی دوست ملے گا، منفی دوست آئیڈیا اور دوست دونوں کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں چنانچہ آپ کے ذہن میں جب بھی کوئی اچھا آئیڈیا آئے، آپ وہ آئیڈیا کسی نان سیریس، منفی اور ناکام شخص کے ساتھ ڈسکس نہ کریں، وہ شخص آپ اور آپ کے آئیڈیا دونوں کو قتل کر دے گا، ہم ولیم ایڈورڈ کی کہانی کی طرف واپس آتے ہیں، ولیم نے کمانڈر جارج کونریڈ سے ڈسکس کیا، کونریڈ نیوی میں کمانڈر تھااور وہ اس کے پوٹینشل سے واقف تھا چنانچہ اس نے آئیڈیا کو قابل عمل قرار دے دیا۔
ولیم ایڈورڈ نے اپنی کشتیاں اور جنگلات کی کمپنیاں بیچیں اور جہاز بنانا شروع کر دیے، اس نے 1915 میں "بی اینڈ ڈبلیو سی پلین" کے نام سے پہلا ہوائی جہاز بنایا، پورا سال وہ جہاز اڑایا اور پھر 1916 میں پیسفک ایرو پروڈکشنز کے نام سے کمپنی بنالی، گروپ نے "بی اینڈ ڈبلیو سی پلین" تجارتی پیمانے پر بنانا شروع کر دیے، جنگ عظیم اول شروع ہوئی، حکومت نے ولیم ایڈورڈ کو 50 جنگی جہاز بنانے کا آرڈر دیا، یہ 50 جہاز کمپنی کا ٹیک آف ثابت ہوئے۔
جنگ ختم ہوئی تو کمپنی کا کام بند ہو گیا اور یہاں سے ایک نئی کہانی شروع ہوگئی۔ ولیم ایڈورڈ نے 1926میں کمرشل فلائٹس چلانے کا فیصلہ کر لیا، یونائیٹڈ ایئرلائینز بنائی اور کمرشل فلائٹس شروع کر دیں، کمرشل فلائٹس کے لیے بڑے جہاز درکار تھے، ولیم نے اپنے خاندانی نام سے بوئنگ کمپنی کی بنیاد رکھی اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، وہ 1956میں 74 سال کی عمر میں انتقال کر گیا لیکن بوئنگ کمپنی آج بھی زندہ ہے، یہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی طیارہ ساز کمپنی ہے، یہ کمرشل جہاز بھی بناتی ہے، ہیلی کاپٹرزبھی، بین البراعظمی میزائل بھی، مصنوعی سیارے بھی اور خلاء میں بھیجے جانے والے راکٹس بھی، یہ دنیا کی پانچویں بڑی دفاعی اور یہ امریکا کی سب سے بڑی برآمدی کمپنی بھی ہے، بوئنگ کے اثاثے 118 بلین ڈالر کے برابر ہیں اور آمدنی 102 بلین ڈالر ہے، یہ کمپنی دو سیٹلائٹس، 96 ملٹری ایئر کرافٹس اور 806 کمرشل طیاروں کی مالک ہے۔
بوئنگ نے 1964میں دنیا کا پہلا نیرو باڈی جہاز متعارف کرایا، طیارے کی دونوں سائیڈوں پر سیٹیں اور درمیان میں راستہ تھا، یہ سنگل آئزل طیارہ تھا، 1967 میں اس کا سائز بڑا کر کے پہلا بوئنگ 100-737 طیارہ مارکیٹ کیا گیا اور پھر سول ایوی ایشن کی پوری مارکیٹ تبدیل ہو گئی، بوئنگ نے اس کے بعد 200-737 اور پھر 300 متعارف کرا دیا، یہ کلاسک جنریشن کہلاتا ہے، پاکستان نے 1985 میں یہ طیارے خریدے تھے اور یہ 2016ء تک پی آئی اے کے استعمال میں رہے، کلاسک کی 400 اور 500 کی سیریز بھی آئیں اور پھر نیکسٹ جنریشن کے نام سے 600، 700 اور800 کی سیریز مارکیٹ ہوئی، بوئنگ نے 2017 میں میکس کے نام سے اپنی تیسری سیریز شروع کی، یہ سیریز 737 میکس کہلاتی ہے۔
اس میں پانچ قسم کے طیارے ہیں، میکس سادہ کی قیمت سو ملین ڈالر ہے، میکس آٹھ کی قیمت 122 ملین ڈالر، میکس 200 کا ریٹ 125 ملین ڈالر، میکس 9 کی قیمت 129 ملین ڈالر اور میکس 10 کی قیمت 135 ملین ڈالر ہے، یہ بوئنگ کے جدید ترین طیارے ہیں، کمپنی کو دنیا بھر سے پانچ ہزار چھ طیاروں کے آرڈر ملے، بوئنگ نے 376 طیارے ڈیلیور کر دیے ہیں جب کہ 4630 طیارے پائپ لائین میں ہیں، چین نے بوئنگ سے 90 طیارے، امریکن ایئرلائینز اور ایئر کینیڈا نے 24 اور ساؤتھ ویسٹ ایئر لائینز نے 31 طیارے خریدے، باقی طیارے سنگا پور، انڈونیشیا اور ملائیشیا نے خریدے، طیارے خریدنے والے ملکوں میں ایتھوپیا بھی شامل تھا، ایتھوپیا نے 30 طیارے بک کرائے، بوئنگ نے 5 طیارے ڈیلیور کر دیے، یہ تمام ایئرلائینز طیاروں کی پرفارمنس اور سہولتوں سے مطمئن تھیں لیکن پھر 29اکتوبر 2018 آ گیا، انڈونیشیا کی لائین ایئر کی فلائیٹ جے ٹی 610 جکارتہ شہر سے پینگ کال پنینگ کے لیے روانہ ہوئی لیکن یہ ٹیک آف کے 12منٹ بعد سمندرمیں گر کر تباہ ہو گئی۔
میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں دنیا میں جہازوں کے 90 فیصد حادثات ٹیک آف اور لینڈنگ کے درمیان ہوتے ہیں، فلائٹس میں اڑنا اور اترنا دونوں مشکل ترین مراحل ہوتے ہیں، انڈونیشیا کا طیارہ بھی اڑتے وقت گرا اور اس میں 189 لوگ ہلاک ہوگئے، یہ بوئنگ میکس کا پہلا حادثہ تھا، دوسرا حادثہ 10 مارچ 2019ء کو ایتھوپیا میں پیش آیا، ایتھوپین ایئر لائین کی فلائیٹ عدیس ابابا سے نیروبی جا رہی تھی، جہاز میں عملے سمیت 157 لوگ سوار تھے، طیارہ صبح آٹھ بج کر 44 منٹ پر اڑا اور ایئر پورٹ سے 60 کلو میٹر کے فاصلے پر بیشوفٹو کے علاقے میں گر گیا، طیارے کے تمام مسافر ہلاک ہو گئے، بس ان دو حادثوں کی دیر تھی اور دنیا کی سب سے بڑی طیارہ ساز کمپنی اور سو سال پرانی کارپوریشن کا جنازہ نکل گیا۔
ملائیشیا، انڈونیشیا، سنگا پور، اومان، آسٹریلیا اور یورپ نے اپنی فضائی حدود میں میکس طیاروں کے داخلے پر پابندی لگا دی، چین، سنگا پور، انڈونیشیا اور ایتھوپیا نے تمام میکس طیارے گراؤنڈ کر دیے اور13 مارچ کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی میکس طیارے گراؤنڈ کرنے اور ان کی پرواز پر پابندی لگا دی اور یوں صرف دو حادثوں کی وجہ سے دنیا کی سب سے بڑی فضائی کمپنی ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ گئی، بوئنگ اگر چند دنوں میں طیاروں کا فالٹ تلاش نہیں کرتی اور یہ وہ نقص دور کر کے طیاروں کو محفوظ اور قابل استعمال نہیں بناتی تو امریکا کی سب سے زیادہ ایکسپورٹ ریونیو دینے والی کمپنی دم توڑ جائے گی۔
آپ اگر ان دونوں حادثوں اور دنیا کے ردعمل کا تجزیہ کریں تو آپ کو محسوس ہو گا دنیا انسانیت کو تمام دنیاوی مفادات پر فوقیت دیتی ہے، بوئنگ میکس کا پہلا حادثہ محض حادثہ تھا لیکن جب دوسرا حادثہ پیش آ یا اور دونوںمیں مماثلت دکھائی دی تو دنیا نے ایک لمحے کے لیے تجارتی اور مالی مفادات کے بارے میں نہیں سوچا اور دنیا کی سب سے بڑی طیارہ ساز کمپنی کا جنازہ نکال دیا، بوئنگ کارپوریشن امریکی انتخابات میں بے شمار چندہ دیتی ہے، کانگریس اور سینیٹ میں اس کے درجن بھر ارکان موجود ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی کابینہ کے وزراء بھی بوئنگ کے بارے میں سافٹ کارنر رکھتے ہیں لیکن امریکی صدر، وزراء، سینیٹرز اور کانگریس مین بھی بوئنگ کی کوئی مدد نہ کر سکے، یہ بھی کمپنی کو نہ بچا سکے۔
کیوں؟ کیونکہ ایشو انسانیت تھا اور انسانیت کا تحفظ دنیا کی سب سے بڑی ذمے داری ہے چنانچہ انسانیت میکس طیاروں پر پابندی لگانے والے تمام حکمرانوں کی مشکور ہے، انسانیت نیوزی لینڈ کے ان شہریوں کی بھی شکرگزار ہے جو مسلمانوں سے اظہار یک جہتی کے لیے نماز کے دوران مسجدوں میں ان کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں، جو النور مسجد کے سامنے پھول، موم بتیاں اور کارڈز رکھ رہے ہیں اور جو 50 مظلوم مسلمانوں کے قتل پر آنسو بھی بہا رہے ہیں، یہ بڑے قدم ہیں، یہ قدم ثابت کرتے ہیں عالمی ضمیر ابھی مرا نہیں، انسانوں کے اندر انسانیت آج بھی زندہ ہے، میں جب بھی یہ دیکھتا ہوں تو میرا سینہ فخر سے پھول جاتا ہے مگر جب میں افغانستان، عراق اور شام کے مسلمانوں کے ساتھ عالمی برادری کا رویہ دیکھتا ہوں یا فلسطین اور کشمیر کے بیگناہ شہریوں کا خون ابلتا دیکھتا ہوں تو میں بے اختیار سوچتا ہوں کیا یہ انسان نہیں ہیں؟ کیا دنیا کو ان کے بارے میں بھی نہیں سوچنا چاہیے؟دنیا میں کروڑوں بے گناہ لوگ اب تک سفید اور براؤن اور عیسائی اور مسلمان کی غلط جنگ کا رزق بن چکے ہیں۔
آدھی دنیا اس وقت تک قبرستان ہو چکی ہے اور اس قبرستان کے پیچھے صرف دو عزائم ہیں، اسلحے کی فروخت اور نسلی نفرت، یہ دونوں عزائم انسانیت کو نگلتے چلے جا رہے ہیں، کاش کوئی عالمی لیڈر اس پر بھی آواز اٹھائے، یہ ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی جیسے لوگوں کو بتائے لوگوں کو بوئنگ میکس سے اتنا خطرہ نہیں جتنا خطرہ میکس نفرت سے ہے، دنیا آج نیوزی لینڈ کے شہریوں کی طرح پرامن مسلمانوں کے پیچھے کھڑی ہو جائے مسلمان خود اپنے ہاتھوں سے اپنی صفوں میں چھپے دہشتگردوں کو قتل کر دیں گے لیکن آپ میکس طیاروں کو روک لیتے ہیں مگر نسل پرستی اور مذہبی نفرت کے سیارے فضا میں اڑاتے چلے جا رہے ہیںاور یہ وہ غلط پالیسی ہے جو زمین جیسی جنت کو دوزخ بنا رہی ہے، اہل مغرب کو اب اس میکس سوچ کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا ورنہ آج مسلمان مر رہے ہیں اور کل پوری انسانیت مر جائے گی۔