قصہ ہماری حب الوطنی کا
یوں تو پورے ملک میں آوارہ کتوں کی بہتات ہے، مگرکراچی کو اس معاملے میں بھی اختصاص حاصل ہے۔ آوارہ کتے شہر بھر میں سیکڑوں کی تعداد میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ اگر یہ صرف آوارہ گرد ہوتے تو شاید مضائقہ نہ ہوتا مگر یہ توکاٹ رہے ہیں۔ کتوں کے کاٹے سے ریبیزکا مرض لاحق ہوتا ہے مگر یہ کتے اس قدر زہریلے ہیں کہ اب تک متعدد افراد کی موت واقع ہوچکی ہے اورکتے کے کاٹے سے مرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اس سلسلے میں جب متعلقہ افراد سے رابطہ کیا گیا تو پتا چلا کہ کتے کے کاٹے کے لیے جو ویکسین استعمال ہوتی ہے اور جس سے ان کی زہرناکی کو روکا جاسکتا ہے وہ ویکسین بھارت سے درآمد کی جاتی تھی اور اب جب کہ بھارت سے ہر قسم کی تجارت منقطع ہوگئی ہے تو یہ ویکسین بھی میسر نہیں، اس لیے کتے کے کاٹنے کے نتیجے میں اموات واقع ہو رہی ہیں۔ گویا ہم بھارت کے بغیرکتوں کے کاٹے پر بھی قابو نہیں پاسکتے۔
بھارت سے ہمارے تعلقات کو منقطع ہوئے دو ماہ ہونے کو آئے ہیں۔ بھارت سے اس ویکسین کے علاوہ دیگر امراض کی دوائیں خصوصاً جان بچانے والی ادویہ یا ان دواؤں کو بنانے والے مفردات درآمد کیے جاتے رہے ہوں گے۔ اب دو ماہ گزرنے کے بعد کیا ہمارے طبی حلقوں اور محکمہ صحت کے ارباب حل وعقد کو یہ ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ یہ ویکسین اور دوسری دیگر ادویہ دوسرے ممالک سے خرید سکیں۔
ہمارے خیال میں یہ اپنے فرائض منصبی سے ایسی غفلت ہے جس کے نتیجے میں کتے کے کاٹے سے ہونے والی اموات کا ذمے دار محکمہ صحت کے ذمے داران کو قرار دیا جائے اور مرنے والوں کے لواحقین کو ان ذمے داران سے قصاص دلوایا جائے۔
یہ ہمارا قومی رویہ ہوگیا ہے کہ ہم صورتحال کو پہلے سے محسوس کرنا تو درکنار جب تک کسی بڑے نقصان کا وقوعہ نہ ہوجائے، ہم اس کے تدارک کو تیار نہیں ہوتے۔ اب تک کتے کے کاٹے سے مرنے والوں کی تعداد درجن بھر سے زیادہ ہوچکی ہے مگر اس کے تدارک کے لیے کوئی موثر قدم اٹھایا ہی نہیں جاسکا اور صرف یہی واویلا کیا جا رہا ہے کہ ویکسین بھارت سے آتی تھی اور اب آنا بند ہوگئی ہے توکیا ہم بھارت کے بغیر زندہ بھی نہیں رہ سکتے؟
یہ رویہ محض ویکسین کے سلسلے میں ہی نہیں۔ اب کی بارشوں میں کراچی کے نالوں کی جو درگت ہوئی ہے اور نالوں کے کناروں کو محفوظ بنانے کے لیے جو دیوار سی بنائی جاتی ہے وہ دیواریں ٹوٹ کر بہہ کر نالوں میں جا گری ہیں اور اب نالے اپنا منہ پھاڑے انسانوں کو نگلنے کے لیے تیار ہیں۔ مگر واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، کے ایم سی اور کے ڈی اے شاید ابھی یہ طے نہیں کر پائے کہ نالوں کو محفوظ بنانا کس کی ذمے داری ہے۔
نالے منہ پھاڑے کسی بڑے حادثے کے منتظر ہیں کوئی گاڑی موڑکاٹتے ہوئے نالے میں جا گرے یا کوئی انسان تیز رفتار سواری سے بچنے کے لیے نالے میں گر جائے تو یقینی موت اس کا مقدر بن سکتی ہے۔ اگر وہ زندہ بچ گیا تو یہ خداوند قدوس کا کرشمہ شمار ہوگا۔ ورنہ ہمارے کسی ادارے نے نہ اس خطرے کو محسوس کیا ہے نہ اس کے تدارک کا کوئی انتظام کیا ہے۔
یہ سب توکسی بڑے حادثے کے منتظر ہیں جب موت کسی انسان کو "بے موت" مار ڈالے۔ ہمارے یہاں قصاص کا رواج اور قانون دونوں ختم ہوچکے ہیں، اس لیے ذمے داران کو کسی قسم کا خوف نہیں۔ وہ نالوں کے اردگرد غیر قانونی ٹھیلوں اور ٹھیوں کو ہٹانے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے میں بڑے مستعد ہیں کیونکہ اس صورت میں ان کو دگنی آمدنی ہوتی ہے۔ ایک بار ٹھیا لگانے کی رشوت، دوسری بار اس کو برباد کرتے وقت ہلکا ہاتھ رکھنے کی رشوت۔ رشوت کی اس گرم بازاری میں انسانی جان اتنی ارزاں ہوچکی ہے کہ کوئی اس کی طرف نظر ہی نہیں کرتا۔
ایک ضروری اور قابل توجہ بات تو رہ ہی گئی۔ بھارت سے کتے کے کاٹے کی ویکسین آنا بند ہوگئی، دوسری بہت سی جان بچانے والی دوائیں بھی ہم اب ان سے نہیں لے رہے، چاہے ہماری جان چلی جائے، دشمن کی مدد کیوں کریں؟ یہ ہماری حب الوطنی کا تقاضا ہے۔ ہم ایک غیرت مند قوم ہیں۔ مر جانا پسند کرتے ہیں مگر دشمن سے ایسے وقت میں تجارتی تعلقات قائم نہیں رکھ سکتے جب کشمیر میں وہ ہمارے بھائیوں کو قتل کر رہا ہو، اور سرحدوں پر ہمارے جوانوں اور سول آبادی پر گولہ باری کر رہا ہو۔
مگر ہمارے بازار گٹکے، بمبئی، مین پوری اور نہ جانے کس کس اور بلا سے بھرے پڑے ہیں، ان کی خرید و فروخت پہلے سے کہیں زیادہ ہو رہی ہے اور تاجروں کی بن آئی ہے، ان کی چاندی ہے اور ان سرکاری افسروں کی بھی جن کی ذمے داری ہے کہ وہ ان ممنوعہ اشیا کو فروخت نہ ہونے دیں۔
یہ جن انتہائی اہم اشیائے "خورونوش" کا ہم نے اوپر ذکرکیا یہ سب بھارت میں بنتی ہیں، وہاں بھی استعمال ہوتی ہیں مگر ہمارے یہاں یہ غیر قانونی طور پر آتی ہیں اورکھلے عام بکتی ہیں اور کوئی مائی کا لال انھیں روک نہیں سکتا کیونکہ مائی کا لال خود ان کی فروخت سے ہونے والی برکات سے متمتع ہوتا رہتا ہے۔
یہ تمام انتہائی اہم اور ضروری اشیا کتے کے کاٹے کی ویکسین سے زیادہ " اہم "، مفید اورکارآمد ہیں اس لیے ہم ہر قیمت پر انھیں "درآمد" ہوجانے دیتے ہیں حالانکہ ان کی فروخت کے منافع کا بڑا حصہ ایک دشمن ملک کو جاتا ہے۔ کیا ہمارے جرائم قابل معافی ہیں؟