مزاح نگاری سے تحقیق تک
پچھلے دنوں آرٹس کونسل میں ایس ایم معین قریشی صاحب کی 26 ویں کتاب کی رونمائی کی تقریب ہوئی۔ وہ گزشتہ کتاب کے اجرا کے ساتھ اپنی تصانیف کی سلور جوبلی منا چکے ہیں۔ یہ سلور جوبلی سے اور کچھ دیگر ہے۔
محض زیادہ لکھنا خوبی کی بات نہیں بلکہ معیاری لکھنا خوبی کی بات ہے اور قریشی صاحب نے معیارکو برقرار ہی نہیں رکھا ہے بلکہ خوب سے خوب تر ہی کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کی تحریر میں تھکن کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ وہ بھی ہماری طرح بیمار رہتے ہیں۔ ہم قلم چھوڑ بیٹھتے ہیں بلکہ بیٹھے ہیں مگر قریشی صاحب کے قلم پر ان کی جسمانی درماندگی کے آثار نظر نہیں آتے۔ اس بار جو کتاب منظر عام پر آئی اس کا نام ہے " یوں نہیں۔ یوں، اورکچھ دیگر" یہ کچھ دیگر ان کے مزاحیہ مضامین ہیں، ان کی تعداد نو (9) ہے۔
معین قریشی صاحب کو بظاہر متضاد چیزوں، امور اور مسائل میں ہم آہنگی تلاش کرنے اور ہم آہنگ چیزوں میں اجنبیت پیدا کرنے میں ملکہ حاصل ہے اوراسی سے وہ مزاح پیدا کرتے ہیں۔ مزاح نگاری کے اپنے اوزار ہوتے ہیں اور ہر مزاح نگار اپنے اپنے اوزاروں اور نشتروں سے کام لے کر معاشرے کے زخموں کو اس طرح کریدتا ہے کہ زخم خوردہ آہیں بھرنے کے بجائے قہقہہ لگانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
معین قریشی صاحب بعض اوقات ایسی متضاد چیزوں میں یکسانیت پیدا کردیتے ہیں جن کا قاری کو گمان بھی نہیں ہوتا اور وہ ورطہ حیرت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہ حیرت محض حیرت نہیں ہوتی بلکہ خوش گواری کی ایک ایسی لہر کے ساتھ پیدا ہوتی ہے جو تبسم زیر لب کا باعث بنتی ہے اور یہی مزاح نگارکی کامیابی بھی ہے۔
مزاح کو طنز سے بمشکل ہی علیحدہ کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے ہمارے یہاں طنزومزاح محض ترکیب نہیں بلکہ ایک جسد واحد کی طرح بولا اور برتا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محض مزاح نگار صرف انگلیوں پرگنے جاسکتے ہیں جب کہ طنز و مزاح لکھنے والوں کی تعداد بہت ہے۔
معین قریشی صاحب بھی مزاح کے ساتھ طنزکے تیر چلاتے ہیں مگر طنزکی خوبی یہ ہے کہ مزاح اس پر حاوی ہوجاتا ہے اور طنزکا نشانہ بننے والا خود بھی اس سے لطف اندوز ہوتا ہے یہی طنز نگارکی کامیابی ہوتی ہے اور اس فن میں بھی قریشی صاحب کو مہارت حاصل ہے وہ دل آزاری کے قائل نہیں، دل داری پر عمل پیرا ہیں اور یہی ان کی کامیابی کا راز ہے۔
یہ نو (9) طنزومزاح پر مشتمل مضامین ان کی مزاح نگاری کی تازہ کاری کا ثبوت ہے اور ان کے نکھرتے ہوئے ادبی اسلوب کے آئینہ دار ہیں۔
کتاب کا پہلا حصہ "یوں نہیں یوں" ہے مگر ہم نے گفتگو " کچھ اور دیگر " پر پہلے کرلی ہے۔ دراصل اس کتاب کی جان یہی پہلا حصہ ہے۔ یہ چونکہ مزاح نگاری پر مشتمل نہیں اس لیے اس پر گفتگو بعد میں کہ یہ نہ صرف یہ کہ ایک سنجیدہ علمی کام ہے بلکہ معین قریشی صاحب کی دقیقہ رسی اور محققانہ بصیرت کا بھی آئینہ دار ہے۔
اردوکے مشہور شعرا کے اس سے زیادہ مشہور شعر یا تو دوسروں کے نام سے منسوب ہوگئے ہیں یا لفظی الٹ پھیر کے باعث کچھ سے کچھ ہوگئے ہیں، ایسے درجنوں اشعار کا معین قریشی صاحب نے جائزہ لیا۔ بعض اشعار کے اصل خالق ڈھونڈ نکالے جو بڑے جان جوکھوں کا کام تھا۔ پھر بڑے بڑے مشہور شعرا کے اشعار میں جو رد و بدل ہوا ہے اس کی صحت کی ہے اور درست صورت کو پیش کیا گیا ہے۔
بعض اوقات اشعار کو پیش کرتے وقت لکھنے والا شعر میں خود اس طرح اصلاح کردیتا ہے کہ اس کے خیال میں وہ شعر کی بہتر صورت ہے مگر یہ بھی… سے خالی نہیں مسئلہ درست پیش کشی کا ہے۔
اس سلسلے میں ایک واقعہ یاد آگیا جب میں پی ایچ ڈی کا طالب علم تھا تو میں اور میرے ایک سینئر ساتھی اپنے اپنے تحقیقی مواد کے حصول کے لیے سفر پر روانہ ہوئے دوران سفر بریلی میں بھی قیام کرنا پڑا۔ بریلی کالج میں دیوان غالبؔ کا ایک نسخہ تھا اور اس میں غالب کا مشہور شعر:
شق ہوگیا ہے سینہ خوشا لذت فراغ
تکلیف پردہ داریٔ زخم جگر گئی
پر کسی استاد نے اصلاح کی تھی اور فراغ کی جگہ "فراق" لکھ دیا تھا فراغ کو باقاعدہ کاٹا گیا تھا۔ میرے ساتھی ڈاکٹر سید حنیف احمد نقوی مرحوم تھے جو بعد میں غالبؔ کے مشہور محقق اور مشہور عالم ٹھہرے۔ ہندو یونیورسٹی بنارس میں پروفیسر رہے وہیں سے سبک دوش ہوئے۔ میں کہتا تھا کہ فراغ سے مطلب اچھا نکلتا ہے اور وہ کہتے تھے فراق سے مطلب بہتر مترشح ہو رہا ہے۔ بریلی سے ہم لاہور جا رہے تھے اس لیے فیصلہ امتیاز علی عرشی پر چھوڑا۔ لاہور پہنچ کر ہم نے مقدمہ عرشی صاحب کے سامنے پیش کیا۔ عالم کی بات ہی اور ہوتی ہے فرمانے لگے ہمیں اس سے کیا غرض کہ مطلب کس لفظ سے بہتر نکلتا ہے یا کون سا لفظ زیادہ بہتر ہے دیکھنا یہ ہے کہ غالبؔ نے کیا کہا ہے۔
انھوں نے غالبؔ کے تین خطی نسخے نکلوائے اور سب میں "فراغ" لکھا ہوا ملا۔ یہ واقعہ اس لیے یاد آیا کہ عرشی صاحب کی عالمانہ رہنمائی نے ہماری مشکل ہی آسان نہیں کی تھی علمی انداز اختیار کرنے کی راہ بھی دکھائی تھی۔ قریشی صاحب نے عین عرشی صاحب والا موقف اختیارکیا ہے اور اشعار کے درست متن پیش کیے ہیں۔ اس سے غرض نہیں کہ اس طرح شعر اچھا ہوتا ہے یا کمزور ہو جاتا ہے۔
مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ قریشی صاحب کسی شعر کو نقل کرنا چاہیں تو جب تک اس کا معتبر متن نہ مل جائے اسے نقل نہیں کرتے چاہے اس کے لیے انھیں کتنے ہی پاپڑ کیوں نہ بیلنا پڑیں۔ یہ پاپڑ انھوں نے بیلے ہیں ولیؔ، سراجؔ اور میرؔ سے لے کر فیضؔ اور ساحرؔ اور پروین شاکر تک انھوں نے تمام شعرا کے حقیر متون پیش کیے ہیں اور تقریباً تین سو سے زیادہ اشعارکے خالقین کو تلاش کیا ہے یا ان کے درست متن تلاش کیے ہیں یہ بڑا کام تھا اور صبر آزما بھی۔ اس میں سالوں لگ گئے مگر یہ سالوں کی محنت ضایع نہیں گئی۔ اس نے معین قریشی صاحب کو ایک ذمے دار اور معتبر محقق کا مقام دلا دیا ہے جو بڑی کامیابی ہے۔ یہ دیدہ ریزی ہر ایک کے بس کی بات نہ تھی۔