Motazla
معتزلہ
معتزلہ مسلمانوں کے پہلے لبرل تھے۔ معتزلہ ایک فرقے کا نام نہیں مسلمانوں کے فکری ارتقاء کے ایک مرحلے کا نام تھا۔ اس مرحلے کی ابتداء اس وقت ہوئی جب عرب کے مسلمانوں نے عجم کی زمین کو اپنے زیر نگین کر لیا۔ ابتدائی مسلم حکمران چونکہ اموی تھے اور امویوں میں عباسیوں کے مقابلے میں عجمیت نہیں بلکہ عربیت زیادہ پائی جاتی تھی۔
یہی عربیت تھی جس نے اموی سلطنت کو عرب امپیریل ازم کی شکل دے دی تھی۔ یہاں تک کہ بعض مورخین یہ کہتے ہیں کہ اموی دور میں کسی غیر عربی امام کی امامت کو بھی ناپسند کیا جاتا تھا، کسی عربی عورت کی عجمی سے شادی کو بھی قبول نہیں کیا جاتا تھا۔ بہر حال اس عربی تسلط کی وجہ سے غیر عربی تہذیبوں کے فکری اثرات دب کر اندر اندر ہی سلگ رہے تھے۔
شبلی نعمانی نے اپنی کتاب علم الکلام اور الکلام میں بہت دلچسپ بات لکھی ہے "عرب زیادہ تر عملی لوگ تھے۔ ان میں فکری اور فلسفیانہ صلاحیتں کم تھیں۔ اس کے مقابلے میں عجمیوں پر فلسفیانہ مزاج زیادہ غالب تھا"۔
عربی اسلام کا جب سامنا عجمی مذاہب سے ہوا تو ان کے باہمی ٹکراؤ نے ایک بہت بڑا فکری خلجان پیدا کر دیا کیونکہ اسلام کی تعلیمات میں سادگی زیادہ اور فلسفیانہ گہرائی کم تھی۔ سوچنے والے مسلم دماغوں کے ذہنوں میں اشکالات کے دروازے کھل گئے۔ فکری انتشار کا یہ عمل اس وقت مزید تیز ہوا جب عباسیوں نے اقتدار سنبھالا۔
عباسیوں کو بنو امیہ کا تخت الٹنے میں جن لوگوں نے مدد کی تھی وہ زیادہ تر عجمی تھی جو امویوں کے عرب امپیریل ازم سے اکتائے ہوئے تھے، اس لیئے عباسیوں میں عجمیت کے اثرات زیادہ تھے۔ آپ دیکھیں گئے کہ زیادہ غیر عربی مسلم محدثین اور آئمہ عباسی دور کی پیداوار ہیں۔ عباسی خلیفہ المنصور نے یونانیوں کی کتابوں کا عربی ترجمہ کروانا شروع کر دیا۔ ترجمہ کرنے کا یہ عمل ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا جسے Greek o Arabic translation movement کہا جاتا ہے۔ اس میں یونانیوں کی کتابوں کے ساتھ ساتھ سنسکرت اور ارامک جو عبرانی زبان کی ایک قدیم قسم ہے ان کے لٹریچر کے ترجمے کیے گئے۔ اس مقصد کے تحت بیت الحکمہ کا اداراہ وجود میں آیا جو اپنے دور کا آکسفورڈ تھا اور اس کہ تشکیل acedmy of Athens کی طرز کی تھی۔
یونانی فلسفہ جب عربی زبان میں ترجمہ ہوا۔ تو اسے پڑھ کر اس سے اثر لینے والے وہ لوگ تھے جن کے ذہن میں پہلے ہی سے عربی اسلام کے حوالے سے اشکالات تھے۔ مگر وہ ان اشکالات کا حل چاہتے تھے، یونانی فلسفے کے پڑھنے نے ایک نیا طبقہ مسلمانوں میں پیدا کر دیا۔ جو یونانی طرز پر سوچتا تھا۔ ارسطو کا فلسفہ اس کی آنکھیں خیرہ کرتا۔ نو فلاطونیت بھی اس کی فکر جنجھوڑتی۔ وہ اس فلسفے کو بھی پسند کرتا تھا مگر مذہب کو بھی نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔ اس فلسفیانہ پسند نے علم الکلام کو جنم دیا۔ علم الکلام وہ علم تھا جس سے اس طبقے نے عقیدے کی تائید اور دفاع منطق و فلسفہ سے کرنا شروع کر دیا۔ دیگر مذاہب کے علماء سے مناظرے ہوتے۔ اور فلسفیانہ استدلال سے اسلامی عقائد کا دفاع کیا جاتا۔
مگر عقیدے کا منطق سے کیا تعلق۔ فلسفہ بھلا کب عقیدے کا دفاع کرتا ہے بلکہ فلسفہ تو وہ تیزاب ہے جو عقیدے کی ملمع کاری کو اتار پھینک دیتا ہے۔ بہر حال اس سارے فکری انتشار۔ فلسفے اور عقیدے کی کشمکش۔ عربیت اور عجمیت کے تصادم سے ایک منظم مکتبہ فکر اٹھا جسے معتزلہ کیاجاتا ہے۔ معتزلہ اعتزال سے نکلا ہے۔ اعتزال کا مطلب ہے جدا ہونا۔ یہ لوگ چونکہ روایتی مذہبی فکر سے الگ فکر رکھتے تھے اس لیئے انھیں معتزلہ کہا جانے لگا۔
بنو امیہ کے دور میں ایک بحث بہت عروج پر تھی کہ انسان اپنے اعمال کا ذمہ دار خود ہے یا جو کچھ ہو رہا ہے یہ خدا کی مرضی سے ہو رہا ہے۔ اموی حکمرانوں کے حق میں یہی بہتر تھا کہ لوگ یہ سمجھیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے خدا کی مرضی سے ہو رہا ہے تاکہ لوگ ان کے ظلم کو بھی خدا کی مرضی سمجھ کر بغاوت کرنے کے بجائے خاموش رہیں۔ اس لیئے حکمرانوں نے جبریہ کو سپانسر کرنا شروع کر دیا۔ جب تک کسی نظریے کو سیاسی طاقت نہ حاصل ہو وہ کبھی پھیل نہیں سکتا، بہر حال عباسیوں نے امویوں کے خلاف بغاوت قدریہ کی فکرکے تحت بھڑکائی۔ یہ ظلم خدا کی مرضی سے نہیں تمھاری خاموشی کی وجہ سے ہے اس لیئے ان حالات کو خدا پر چھوڑنے کے بجائے تمھیں خود انھیں بدلنا ہوگا۔ عباسیوں کے دور حکمرانی کے ابتدا سے ہی دانشور قدر ے اعلی عہدوں پر بیٹھ گئے تھے۔
برامکہ بھی انہی میں شامل تھے۔ برامکہ قدیم بدھ مت کے مذہبی خانوادے سے رکھتے تھے۔ یہ بڑے پڑھے لکھے تھے۔ یحیی برمکی کے علم کلام پر تو شبلی نعمانی نے بہت اچھی بجث کی ہے اپنی کتاب علم الکلام میں۔
بہر حال اسی دور میں حسن بصری کا ایک شاگرد اپنے استاد سے اختلاف کر بیٹھتا ہے۔ اختلاف منزلتہ بین المنزلین پر ہوتا ہے اور اختلاف کرنے والے شاگرد کا نام تھا واصل بن عطاء۔ معتزلہ کا بانی۔ اس کا کہنا تھا کہ گناہ کبیرہ کرنے والا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہو کر کفر کی حدود میں داخل نہیں ہوتا بلکہ اس کا مقام کفر و اسلام کے بیچ ہی رہتا ہے۔ جب کہ حسن بصری کی رائے اس سے الٹ تھی۔
اس اختلاف کی بناء پر واصل بن عطاء نے اپنی راہیں حسن بصری سے جدا کر لیں۔ واصل تھوڑا آزاد خیال تھا اور اس کی فکر راسخ العقیدگی سے ہٹ کر تھی۔ وہ انسان کو اپنے اعمال کا ذمہ دار سمجھتا۔
واصل کے بعد معتزلہ دو شاخوں میں تقسیم ہو گئے ایک بصری شاخ تھی تو دوسری بغدادی۔
بصری معتزلہ کا گاڈ فادر تھا اپنے دور کا نامور متکلم ابولہذیل۔ یہ بہت ذہین شخص تھا۔ معتزلزم کی بنیاد پانچ اصولوں پر کھڑی ہے ان اصولوں کو اصول خمسہ کہا جاتا ہے۔ اصول خمسہ کی ترتیب و تدوین کرنے والا بھی یہی ابوالہذیل تھا۔ اس کی عباسی دربار تک رسائی تھی۔ بصری معتزلہ سنی اسلام کے زیادہ قریب تھے جب کہ بغدادی معتزلہ کا بانی بشیر ابن المعتمر تھا۔ بغدادی معتزلہ کو ہارون الرشید کی خاص سرپرستی حاصل تھی۔ یہ شیعہ اسلام کے زیادہ قریب تھے۔
ہارون الرشید بھی تھوڑا فلسفیانہ ذہن کا مالک تھا اس نے اپنی فکر کی تراش خراش شروع کر دی تھی۔ اس کے لیئے اس نے ہتھیار معتزلہ کو بنایا۔ کسی بھی مکتبہ فکرکے پاس جب ریاستی طاقت آتی ہے تو وہ اپنی فکر کو مسلط کرنے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔ یہاں تک تشدد سے بھی گریز نہیں کرتا۔ یہی کام معتزلہ نے بھی کیا۔ جو بھی عالم ان کی فکر سے ٹکراتا اس کا حال امام ابن حنبل کی طرح ہوتا۔
معتزلہ قرآن کو مخلوق سمجھتے تھے جب کہ امام قرآن کو خالق کا کلام سمجھتے یہ اختلاف صفات ذات کا تھا کہ، کلام خدا کی صفت ہے جیسے تخلیق بھی خدا کی صفت ہے۔ خدا کی صفت خدا سے جدا ہے۔ جیسے انسان خدا کی تخلیق ہے اس لئے خدا کی مخلوق ہے اس طرح قرآن بھی خدا کی صفت کلام ہے اس لئے قرآن کی بھی مخلوق ہے۔ جب کہ امام احمد بن حنبل صفت خدا جو خدا سے جدا ہونے پر معترض تھے ان کا خیال تھا کہ اگر قرآن کو بھی مخلوق تصور کر لیا جائے تو جیسے مخلوق مٹ جاتی ہے ویسے کی قرآن کے مٹ جانے کا احتمال ہے۔
بہر حال امام شھید کر دیئے گئے۔
یہاں ایک غلط فہمی بہت عام ہے کہ مسلمانوں کا سنہری دور جس میں مسلم سائنسدانوں نے بے شمار ایجادات کیں۔ اس سنہری دور کا سہرا معتزلہ کے سر جاتا ہے جونہی معتزلہ کا زوال آیا تو مسلمانوں کی سائنس ترقی رک گئی۔
میرے نزدیک کسی بھی عروج و زوال کو فقط ایک رخ سے دیکھنا بذات خود ایک سطحی عمل ہے۔ مسلمانوں کی سائنسی ترقی ایک پیچیدہ عمل تھی۔ اس عمل کی ابتدا اس وقت ہوئی جیسا تحریر میں پہلے بھی بیان کیا چکا ہے عجمی مذہب و فلسفے کا سامنا عرب کے عملی اور سادہ مذہب سے ہوا۔ اس مذہب و فلسفہ کے فرینڈلی فائر سے ہی مسلمانوں کی سائنسی ترقی پھوٹی اور معتزلہ بذات اسی عمل کے پیدوار تھے جس سے مسلم سائنس داں پیدا ہو رہے تھے نہ کہ معتزلہ خود مسلمانوں کی سائنسی ترقی کے بانی تھے۔ مگر یہ پہلو بہر حال موجود ہے کہ معتزلہ نے مسلم سائنسدانوں کو فکری بیساکھیاں ضرور فراہم کیں تھیں۔
انھوں نے استدلال اور عقلیت کی وہ فضا قائم کی تھی جس کی وجہ سے ابن سینا جیسے سائنسدانوں کو عقائد کی فصیلوں کو پھلانگ کر تدبر کرنے کی راہ ملی۔
معتزلہ نے مسلمانوں میں عقلیت پسندی کی داغ بیل ڈالی تھی وہ عقائد کی عقلی توجیہہ کیا کرتے۔ فضل الرحمن جو برصغیر کے ایک عظیم سکالر تھے وہ اپنی کتاب My beliefs on actions میں معتزلہ کے بارے میں ایک دلچسپ جملہ لکھتے ہیں کہ معتزلہ بعض اوقات استدلال کو وحی پر بھی فوقیت دے دیتے۔ "
مگر معتزلہ کی استدلالی فکرنے روشن خیالی کی بنیاد ڈالی تھی۔ مسلم راسخ العقیدگی میں لچک پیدا کی تھی جس نے کئی بڑے مفکرین کو جنم دیا۔ جن میں امام اشعری بھی تھے جو ایک نامور معتزلی کے شاگرد تھے بعدازاں وہ معتزلہ سے الگ ہوگئے۔ الاشعری مکتبہ فکر کی بنیاد رکھی۔ خلیفہ المتوکل معتزلہ کو ناپسند کرتا تھا اسے اعتزال کا تریاق الاشعریہ کی صورت میں مل گیا اس نے اشعریوں کو سپانسر کرکے معتزلہ کا دھڑن تختہ کرنا شروع کر دیا۔ مگر پھر بھی کئی ریاستی عناصر معتزلہ کے حق میں تھے۔
اعتزال کے زوال میں اشعریہ کا عروج بہت بڑا عنصر تھا۔ دوسرا عنصر تصوف تھا۔ عباسی خلافت کو جب منگولوں نے لپیٹ کے رکھ دیا۔ تو مسلمان شکست خوردہ رہ گئے اس شکست خوردگی نے ان کے اندر کسی مرہم کہ تلاش کی جستجو جگا دی۔ یہ مریم تصوف کی شکل میں سامنے آیا جس نے مسلمانوں کو روحانی افیون میں ٹن کر دیا۔ تصوف ذلت و شکست کے دور میں پروان چڑھا تھا۔ وہ تصوف کے عروج کا دور تھا ابن عربی اور مولانا رومی اس دور زوال میں سامنے آئے تھے۔ تصوف بذات خود عقل و خرد کو انسان کا دشمن کہتا ہے۔ اس عقلی جمود نے بھی اعتزال کے زوال میں اہم کردار ادا کیا۔
اس کے زوال کے ساتھ ہی اجتہاد کے دروازے بند ہو گئے۔ اور مسلم دنیا فکری جمود کے فریج میں پڑی رہ گئی۔ جس پر برف کی اتنی تہییں جم گئیں کہ ہزار سال گزرنے کے بعد بھی فکری جمود کی برف پگھلنے کا نام نہیں لے رہی۔