1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaara Mazhar/
  4. Patang Baz Sajna

Patang Baz Sajna

پتنگ باز سجنا

ٹھنڈ کے ساتھ لڑتے جھگڑتے فروری نےچپکے سے بینک بیلنس پہ آٹو میٹک دستک دی، تو خیال آیا ارے بیتے برسوں میں تو یہ بسنت کا مہینہ کہلاتا تھا۔ اب بس سادہ سا فروری رہ گیا، نئے سال کا دوسرا مہینہ۔ کسی زمانے میں موسمِ بہار کا آ غاز پتنگ اڑانے سے شروع کیا جاتا تھا۔ بہت پرانی بات نہیں ہے ہماری پسندیدہ ترین یعنی 90ء کی دہائی کا ذکر ہے، فضا میں ہرطرف رنگ برنگی پتنگوں سے بہار چھا جاتی۔ ہوائیں گھروں میں پکنے والے پکوانوں کی خوشبو دور تک اڑا لے جاتیں، اور کہیں کہیں باحیا رنگین آ نچل بھی اڑتے، لہراتے دکھائی دے جاتے۔

لڑکے، بالوں کی نظریں پتنگوں سے ہٹ کر ان رنگین آنچلوں کے تعاقب میں الجھ کر اپنی پتنگ کٹوا بیٹھتے۔ خبر تب ہوتی، جب ارد گرد کی چھتیں بوکاٹا سے گونج اٹھتیں۔ جونہی سرسوں کو پیلے پھول پڑتے لڑکیاں بالیاں پیلے جوڑے زیبِ تن کرتیں، رفتہ رفتہ ہر شوخ رنگ پیراہن کو بسنت میلے میں شامل کر لیا گیا، جس سے بسنتی رنگوں میں اضافہ ہوگیا۔ بڑے بوڑھے کہتے آ ئی بسنت، پالا اُڑنت۔ یہ ایک طرح سے بھاری بھر کم لحافوں، جرسیوں اور شالوں کے بوجھ سے آ زادی کا رسمی اعلان بھی ہوتا۔ سب ہلکے پھلکے ہو جاتے اور آ سمان پر لال، نیلی، پیلی، اور ہری پتنگوں کی رنگین بہار چھا جاتی۔

آ سمان ان رنگین اڑتی پتنگوں کے بیچ ٹکڑی ٹکڑی سا نظر آ تا۔ چھتوں پر باقاعدہ دریوں اور نشستوں کا اہتمام کیا جاتا۔ ڈھول، ڈیک، باجے گاجے اور نفیری کا بھی انتظام ہوتا۔ ہر گھر کی چھت پر شام کو اتنی رونق اور بھیڑ نظر آ تی کہ، وضع دار باپ بھائی لڑکیوں کو چھت پر آ نے سے روک دیتے۔ گڈی فروشوں کا کاروبار عروج پر تھا۔ باقاعدہ ایک بڑی اور خوبصورت صنعت تھی۔ بہت سے لوگوں کا روزگار وابستہ تھا۔ اسّی اور نوّے کی دہائی، پنجاب میں اس صنعت کے عروج کی تھی۔ مگر یہی عروج اس کے زوال کا سبب بن گیا۔

طرح طرح کی ڈوریں جن پر رنگ کے ساتھ شیشہ، مانجھا اور کچھ مزید کمیکل وغیرہ ڈور کو کاٹ دار بنانے کے لیئے لگایا جاتا تھا۔ بڑے اور کھلے میدانوں میں بڑی محنت اور نفاست سے یہ کام کیا جاتا۔ مگر دھاتی ڈوروں نے اس صنعت کی تباہی میں مرکزی کردار ادا کیا، اور مختلف نقصانات اور پابندیوں کا شکار ہوتے ہوتے یہ صنعت مکمل طور پر ڈوب گئی۔ دھاتی ڈور نے بہت سے شہریوں کے نرخرے کاٹ کر رکھ دیئے۔ بجلی کی تاروں پر گرتی تو علاقے کو بلیک آ ؤٹ جیسے بحران سے دوچار کروا دیتی۔ بِل آخر پنجاب حکومت کو اس پر پابندی لگانی پڑی۔

پتنگ بازی چونکہ بنیادی طور پر پنجاب کا ایک تہوار تھا اور پنجاب کے کلچر کے مزے انوکھے رنگ رکھتے ہیں۔ پنجابی ہر تہوار اور خوشی کو کھلے دل سے مناتے ہیں۔ گڈے، گڈیاں، پتنگ، ڈھول، ماہئیے، تاشے، باجے، گاجے کے ساتھ رقص، بھنگڑا، لڈی، گِدا اور طرح طرح کے پکوان سب فراخ دلی کے ساتھ چلتے رہتے تھے۔ نوے کی دہائی کے آخری برس میں، فریحہ پرویز نے پتنگ باز سجنا گایا۔ اور راتوں رات انکی شہرت کسی سُدھ پتنگ کی طرح آ سمان پہ پرواز کر گئی۔ لڑکیاں اس کے بسنتی جوڑے اور کانوں میں پہنے بڑے بڑے بالوں پہ مر گئیں۔

اس وقت لگتا تھا، پتنگ بازی پنجاب کا صوبائی تہوار کا درجہ اختیار کر گیا ہو۔ لاہور، گوجرانوالہ اور فیصل آباد۔ پنجاب کے یہ تینوں صنعتی شہر بسنت منانے کے حوالے سے بڑی دھوم اور شہرت رکھتے تھے۔ پتنگ بازی کی ضلعی ایسوسی ایشنز اور بڑے بڑے پتنگ باز آ پس میں رابطے میں رہتے اور فروری کی کسی سنہری، سرسوں کے پھولوں سے مہکتی شب اتوار کو چن لیا جاتا۔ آ غاز لاہور سے کیا جاتا۔ گوجرانوالہ اور فیصل آباد والوں کو اطلاع کے ساتھ دعوت بھی دے دی جاتی۔ دونوں شہروں کے جغادری اور بڑے بڑے سرمایہ دار شوقین، بسنت منانے لاہور کا رخ کرتے۔

اس وقت فلمی اور ڈرامائی صنعت بھی اپنے عروج پر تھی۔ اداکار اور اداکارائیں عوام میں بے پناہ مقبولیت رکھتے تھے۔ فلم اور ٹی وی کی اداکارائیں بھی تہوار میں رنگ بھرنے کے لیئے بسنتی رنگ، شوخ جوڑے اور دھوپ کے بڑے بڑے چشمے پہنے چھتوں اور کھلی جگہوں پر پہنچ جاتیں۔ گیس کے ہنڈوں اور بجلی کی فلڈ لائٹیوں سے رات میں دن کا سماں ہوتا۔ جگہ جگہ دیگیں پک رہی ہوتیں، فضا طرح طرح کے پکوانوں سے بوجھل ہو جاتی۔ دھواں لگے کباب، بریانی، پلاؤ اور زردہ کولڈ ڈرنک کے ساتھ مقبول عام تھے، کیونکہ انہیں بغیر تکلف کے بھی کھایا جا سکتا ہے۔

معلوم نہ پڑتا ہوا میں خوشبو زیادہ ہے، رنگ زیادہ ہے، روشنی یا قہقہے۔ جونہی گھڑی بارہ کا گھنٹہ بجاتی فضا شرلی پٹاخوں، جھنجھنوں اور ڈیک کی تیز آ وازوں سے بھر جاتی۔ ایک ساتھ کئی پتنگ باز آسمان پر پتنگیں اڑا دیتے، دور اوپر آ سمان پہ پیچے لگتے، منٹ منٹ میں بوکاٹا کا بلند بانگ نعرہ لگتا۔ اگر دونوں پتنگ باز ماہر ہوتے تو کوئی کوئی پیچا گھنٹوں چلتا رہتا۔ ختم ہوتی ڈور کے سروں پر نئے پِنّے باندھے جاتے۔ بلکہ اس روز ماہر پیچے باز خود کو ہیرو ہیرو سا محسوس کرتے۔ دوسری طرف پتنگ اور ڈور لوٹنے والے بھی تاک میں ہوتے۔ چھینا جھپٹی بھی ہوتی اور گتھم گتھائی بھی۔

لُوٹی ہوئی پتنگ کم ہی سلامت رہتی۔ کبھی تو دو دعوے داروں کے دست و گریبان ہونے کے عمل میں، کوئی تیسرا گڈی اچک کر اپنے گھر کی چھت پہ سرپٹ بھاگ لیتا۔ رات بارہ، ایک اور دو بجے تک یہ ہلاگلا رہتا پھر سب تھک ہار کر سو جاتے۔ اگلے دن تک غٹ ہی رہتے۔ اس سے اگلی اتوار گوجرانوالہ کی باری ہوتی۔ اب پچھلے ہفتے کے میزبان اہلِ لاہور مہمان بھی ہوتے۔ ناچنے والیاں لاہور سے اسپیشل بلوائی جاتیں، جو چھتوں پر انڈین گیتوں پر ڈانس پیش کرتیں۔ وہی جھنجھنے، باجے گاجے، وہی بو کاٹا کے فلک شگاف نعرے اور پھر وہی تھکاوٹ وہی نیند۔

اگلے اتوار فیصل آباد میزبان بنتا۔ اور کم وبیش وہی ہنگام چلتا، بعد میں سُنا پنڈی اور ملتان بھی شامل ہو گئے۔ مگر تب ہم کالے کوس جا چکے تھے، اس لیئے ہمارے اندر کا راوی خاموش ہے۔ خیر ہمیں تو اب ان دنوں کو ہی یاد کر کے بہت لطف آ تا ہے۔ بیچاری ہماری نئی نسل ایک محروم نسل ہے، اسے کیا معلوم کہ ڈور انگلی پہ ہو اور پتنگ ہزاروں فٹ کی بلندی پر۔ کیا سرور ہوتا ہے، کیانشہ ہوتا ہے۔ پتنگ کے ساتھ تن من بھی ڈولنے لگتا ہے۔ جیسے ناگن سپیرا۔ گڈی اڑانی آ تی ہو یا نہیں، اسے لوٹنے کا اپنا ہی مزہ اور خوشی ہے۔

بسنت والے روز ہمیں چھت پر تو نہیں جانے دیا جاتا تھا، ہم نیچے ہی سارا شور و غوغا سن کر محظوظ ہوتے رہتے۔ مگر آ گے پیچھے ہم نے بہت گڈیاں پتنگیں لوٹیں بھی اور گِچھیاں بھی ہاتھوں پر لپیٹیں۔ بھائیوں کے ساتھ مل کر چڑھائیں بھی۔ جو والدہ کے خیال میں نیا چاند چڑھانے کے مترادف تھا۔ ہم بھی مجبور تھے دو بھائی ہم سے بڑے، دو بھائی ہم سے چھوٹے۔ بیچ میں پھنسی ہماری معصوم سی دھان، پان سی جان۔ لڑکوں والے کھیل ہی کھیلتے ناں۔ بسنت کا مہینہ چل رہا ہے، ہم نے سوچا اس حوالے سے کچھ یادیں تازہ کی جائیں۔ کہ جب تک ہم زندہ ہیں، روایات کو مرنے نہیں دیں گے۔

Check Also

Gandum, Nizam e Taleem, Hukumran Aur Awam (2)

By Zia Ur Rehman