1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaara Mazhar/
  4. Asaib Zada Ghar

Asaib Zada Ghar

آسیب زدہ گھر

وہ سامنے دھند میں لپٹا ہوا گھر نظر آرہا ہے ناں آج اسکی ایک کہانی سنانی ہے۔ میرے گھر کے عین سامنے گلی کی نکڑ پہ آگے پیچھے ایک جیسے بنے یہ دو گھر دو واپڈا سے ریٹائرڈ بزرگوں کے ہیں۔ پچھلے گھر میں یہ دونوں صاحبان اور انکی ایک عدد ہمشیرہ رہتی ہیں، وہ بھی اہل و عیال سے محروم ہیں جانے کیا کہانی ہوگی انکی۔ خیر برس ہا برس سے یہ سامنے والا گھر خالی پڑا ہے۔ ایک بار ہم نے اسے خریدنے کی کوشش کی تھی، اسی چکر میں گھر کو اندر سے جاکے دیکھا۔

مگر اجاڑ بیابان کا گمان ہوا، جگہ جگہ سے دیواروں کے پلستر اُکھڑ رہے تھے، فرش کھدے ہوئے، دیواریں آسیب زدہ سے لگتی تھیں، بڑی بے تکی سے تعمیر تھیں اس لئے ہمارا سودا نہیں بنا۔ دوران وزٹ مالک مکان نے بتایا کہ ہم دونوں بھائیوں کے دو دو بچے ہیں اور امریکہ سیٹل ہو چکے ہیں، کبھی واپس نہیں آئیں گے، ہم بھی یہ دونوں گھر بیچ کر انکے پاس ہی چلے جائیں گے۔ اب گھر کی خستہ حالی کے ساتھ انکی ڈیمانڈ نئے بنے ہوئے گھروں کے مطابق تھی، سو ان کا کبھی کہیں سودا نہیں ہوسکا۔

ہمارے ٹیرس سے صاف نظر آتا ہے کہ خریدار تو آتے تھے لیکن انکی ڈیمانڈ دیکھ کر بنا آفر دئیے چل دیتے، پچھلے برس ہم نے نئی ہیلپر رکھی تو اس نے بتایا کہ یہ گھر آسیب زدہ ہے اس لیے یہاں نہ تو کوئی کرایہ دار ٹکتا ہے نہ ہی یہ بکتا ہے، ہم نے شکر ادا کیا کہ پھنس نہیں گئے، چار ماہ پیشتر اچانک یہ گھر کرایہ داروں سے آباد ہوگیا۔ چھوٹے سے لان میں پانی کا بڑا سا انڈے کی طرح سفید ٹینک رکھ دیا گیا ٹینکر والے پانی بھر گئے۔

گراؤنڈ فلور پہ چھڑے چھانٹ رہنے لگے۔ فسٹ فلور پہ ایک بڑے ہوتے بچوں کی فیملی آباد ہوگئی اور سیکنڈ فلور پہ میاں بی بی اور دو ننھے بچوں پہ مشتمل گھرانہ رہنے لگا، ہم نے سوچا کہاں گئی اس کی آسیب زدگی۔ خیر ہمیں تھوڑا سا اعتراض ہوا کہ سوسائٹی کے عین شروع میں جہاں فیملیز آباد ہیں اور انکی جوان بچیاں بھی رہتی ہیں، یہ ان صاحب نے کیسا گڑ بڑ گھٹالا مچایا ہے لیکن ہمیں جلد ہی اپنی تشویش زدہ رائے بدلنی پڑی۔

گراؤنڈ فلور کے رہائشی بچے اس قدر سلجھے ہوئے ہیں کہ کم کم ہی دکھائی دیتے ہیں، جتنے دکھائی دیتے ہیں، نظر جھکا کے عجلت سے پشت پہ کراس باڈی پہنے نکلتے دکھائی دئیے۔ اگلے چند ہفتوں میں دو چمکتی دمکتی مہران گاڑیاں بھی کبھی گیٹ کے اندر کبھی باہر نظر آنے لگیں۔ ہم اپنی ہیلپر کے ساتھ صفائی والا گھنٹہ)(دس سے گیارہ کے درمیان)اسکی نگرانی میں ٹیرس کی آوک جاوک میں گزارتے ہیں کہ کہیں پانی نہ بہا دے ٹونٹی کھلی نہ چھوڑ دے مبادا ہماری ٹوٹیاں پانی کی بجائے، پھس پھس ہوا خارج کرنے لگیں۔

خیر اسی آوک جاوک میں ایک مہران والا بچہ اکثر سامنے کے خالی پلاٹ میں سر جھکائےگاڑی کو چمکاتا نظر آجاتا بس اتنا ہی، اس سے زیادہ ہم نے توجہ نہیں دی ان دنوں دماغ کی کچھ اور مصروفیات تھیں۔ تین ماہ پہلے اللہ اللہ کر کے بٹیا کی یونیورسٹی کھلی سمسٹر کے آغاز میں بتھیرے رولے اور جھگڑے ہوتے ہیں۔ ڈیپارٹمنٹ کے وقت کے اور وین کے پک اینڈ ڈراپ کے۔ یونیورسٹی کے آفیشیل ٹرانسپورٹ کی ویب سائیٹ بیگ ٹرانسپورٹ پہ آن لائین بھاڑا جمع کروانے کے باوجود روٹ نہیں بن رہا تھا، وین روز ہی بنا پک کئے چل دیتی کہ جگہ نہیں بچی تھی۔

تین دن تو بٹیا کو بھائی چھوڑ آیا، چوتھے دن اس نے ہاتھ اُٹھا دئیے کہ بس آج مجھے خود اپنے ڈیپارٹمنٹ میں سنجیدہ نوعیت کا کام ہے، حاضری ضروری ہے۔ بٹیا کی بھی ضروری تھی ابا اپنے آفس جاچکے تھے۔ صبح کے وقت اوبر، کریم گھنٹہ بھر بھی کھپنے پہ بھی نہیں ملتیں ویسے بھی بٹیا کو اکیلا بھیجنا نہیں چاہتے تھے، مخمصے میں تھے کہ کریں تو کیا؟ ایویں ہی ٹیرس سے جھانکا تو وہی لڑکا خالی پلاٹ میں گاڑی چمکاتا نظر آیا۔

ڈوبتے کو تنکے کا سہارا بلا ارادہ بلانے کا اشارہ کر دیا، پوچھا بیٹا کہاں جاتے ہو؟ کیا یہ گاڑی اوبر یا کریم کے ساتھ معاہدے میں ہے۔ اس نے کہا نہیں لیکن میں اسلامک یونیورسٹی میں پڑھتا ہوں۔ صبح راستے کی کوئی سواری مل جائے تو میرا خرچہ نکل جاتا ہے۔ ہم نے بٹیا کو ٹیکسی میں بٹھایا کہ NUST ڈراپ کر دینا اور نمبر نوٹ کر لیا۔ جب تک بیگ ٹرانسپورٹ والے کوئی سرا نہ پکڑاتے ہمیں آسرا ہوگیا۔

واپسی پہ بھی لے آیا ہم نے ٹٹول کی خاطر پوچھا بیٹا کیا پڑھتے ہو کہاں کے رہائشی ہو، بتایا کہ اسلامک میں قانون کا تیسرے سال کا طالب علم ہوں۔ پشاور سے آیا ہوں، لاچار ابا کے پاس میرے لئے صرف ڈھائی تین لاکھ کی پونجی تھی، جو اس نے میرے مزید پڑھنے کی خواہش پہ میرے حوالے کر کے ہاتھ جھاڑ دئیے، میں نے سوچا یہ رقم تو ڈیڑھ دو ماہ میں گل ہو جائے گی اور ڈگری چار سال میں ملے گی کیا کروں۔

ایک دوست نے مشورہ دیا کہ اسلام آباد جارہے ہو، ایک چھوٹی گاڑی لے لو بہت سی سواریاں مل جاتی ہیں، پک اینڈ ڈراپ کرتے رہنا۔ اپنا خرچہ بھی نکل آئے گا، سرمایہ بھی محفوظ رہے گا اور روپے سے روپیہ بنتا رہے گا۔ بات سمجھ میں نہیں سما رہی تھی کہ کیسے ہوگا، نئے شہر میں رہائش کہاں رکھوں گا اور سواریاں کیسے اٹھاؤں گا لیکن اور کوئی رستہ نہیں تھا، دو سال پہلے ابا کے روپوں سے یہ گاڑی لی اور جوا کھیلنے کا فیصلہ کر لیا۔

راہ متعین ہوگئی ٹھان لیا تو رب نے ہاتھ پکڑ لیا، صبح کسی سواری کو یا کسی ایسے ہی وین چھٹے کو اسکی یونیورسٹی یا آفس ڈراپ کر کے اپنی یونیورسٹی چلا جاتا ہوں، واپسی پہ بھی روزانہ ہی کوئی ضرورت مند مل جاتا ہے۔ بک بک جھک جھک کر کے وقت ضائع نہیں کرتا، مروّج پچاس روپے کم لے لیتا ہوں۔ اپنے اخراجات سے بچ کے میرے پاس کافی رقم جمع ہو جاتی ہے، جو گھر بھیج دیتا ہوں اعتماد سے بولا ٹھاٹھ سے اپنی گاڑی میں یونیورسٹی جاتا ہوں۔

بمشکل بائیس تئیس سال کا لڑکا ہے۔ ہماری ممتا امڈ کے جاگی بچے کو پیار کیا اور کسی بھی ضرورت کے وقت بلا جھجھک دروازہ کھٹکھٹانے کا کہہ دیا۔ جس روز بٹیا وین سے رہ جاتی ہیں یا ہمیں کہیں جانا ہوتا ہے تو ہم فون کھڑکا دیتے ہیں، کوئی ٹینشن نہیں ہوتی کہ بچے کا سامنے ہی تو ٹھکانہ ہے کہاں جائے گا۔ ہاں آخرمیں ایک بات کہ گھر کی آسیب زدگی دھل چکی ہے۔ ہمیں کبھی کوئی غیر معمولی بات نظر نہیں آئی، شائد جب انسان ہمت کرنے کی ٹھان لیتا ہے تو بڑی سے بڑی رکاؤٹ اور آسیب کو شکست دے سکتا ہے۔

Check Also

Pakistani Cubic Satellite

By Zaigham Qadeer