Sunday, 17 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waqas
  4. Zimmedar Kon?

Zimmedar Kon?

ذمہ دار کون؟

صبح اسمبلی کے فورا بعد پہلا پیریڈ انگلش کا تھا۔ ہم نے کتابیں اٹھائیں اور کمرے سے باہر لان میں آ کر بیٹھ گئے۔ استاد محترم کی کرسی لگ گئی اور وہ آ کر براجمان ہوئے۔ چلو بھائی اکرم آج تم سے سبق سنیں گے۔ یہ الفاظ سنتے ہی اکرم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور پسینے چھوٹ گئے کیونکہ اکرم کو پتہ تھا کہ اس نے کچھ یاد نہیں کیا اور اب پھینٹی لگے گی۔ خیر اکرم نے نصیحت لینے والے اندازمیں آخری نگاہ کلاس کے ذہین طالب علم پر ڈالی اور اٹھنے لگا۔ اسی دوران وہ ذہین طالب علم اکرم کی جانب لپکا اور اسے کچھ نصیحتیں ارشاد فرما دیں۔ استاد محترم کا غصہ آسمان کو چھو رہا تھا اور اکرم کو مختلف القابات سے یاد کر رہے تھے کہ گھر سے سبق یاد کرکے آیا کرو اب لفظ پوچھ پوچھ کے ساری کلاس کا وقت ضائع کر رہے ہو۔

خیر اکرم کھڑا ہوا اور اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ پڑھنا شروع کر دیا اور وہ کیا پڑھ رہا تھا وہ کسی پیر کے تعویز کی طرح بس اس کی سمجھ میں آ رہا تھا۔ جو کچھ ہمیں سمجھ میں آیا وہ یہ تھا کہ صاحب مخصوص زبان میں مخصوص القابات ارشاد فرمائے جا رہے تھے۔ حیرانی اس وقت ہوئی جب استاد محترم کی طرف سے نعرہ تعریف بلند ہوا کہ اکرم نے تو آج کمال کر دیا۔ آج تک میری کلاس میں اتنی روانی سے سبق کسی نے نہیں سنایا اور اکرم کو تعریفوں کے ہار ڈال کر بٹھا دیا گیا۔ کلاس ختم ہوئی تو اکرم نے اس ذہین طالبعلم کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور کہا کہ آج تم نے بچا لیا۔ جب ہم نے راز اگلوایا تو پتا چلا کہ استاد محترم کا انگلش میں ہاتھ کچھ زیادہ ہی تنگ ہے۔ اس لئیے آپ کچھ بھی پڑھیں لیکن پڑھتے جائیں۔ خاموشی یا سستی کا مطلب پھینٹی ہے اور چستی اور تیزی کا مطلب شاباشی۔

اس کے بعد سے جب تک وہ استاد محترم ہماری انگلش کی کتاب کے استاد رہے ہم لوگ کبھی پھینٹی کھانے والوں کی لسٹ میں شامل نہیں ہوئے۔ یہ کمال کا گر دینے پر ہم نے اس مانیٹر کو باقاعدہ چنا چاٹ کی پارٹی بھی دی۔

ایک بار اسلامیات کی کلاس میں استاد صاحب تشریف لائے اور انہوں نے کہا کہ جس جس کو سبق یاد ہے وہ ہاتھ کھڑا کرے سب لوگ ہی جانتے تھے کہ وہ سبق نہیں سنتے اس لئیے ہر بندے نے ہاتھ کھڑا کرکے جان چھڑوائی۔ ایک لمبا تڑنگا سٹوڈنٹ بھی کلاس میں تھا جس کا ہاتھ سب سے بلند نظر آ رہا تھا۔ استاد صاحب نے کہا کہ ٹھیک ہے سب ہاتھ نیچے کر لیں البتہ کل سبق سنیں گے۔ یہ ہمیشہ سے دہرایا جانے والا جملہ تھا آج پھر سے سنا گیا۔ لیکن اگلے دن معاملہ کچھ مختلف ہوگیا۔ استاد صاحب شدید غصے میں تشریف لائے اور انہوں نے وہی سوال دہرایا۔ ان کے غصے کی وجہ سے کسی نے ہاتھ بلند نہ کیا اور وہ لمبا تڑنگا ہاتھ جو سب سے بلند تھا استاد صاحب کی نظر میں تھا انہوں نے اسے بلایا اور سبق سنانے کو کہا۔ سبق نہ آنے پر اسکا وہ حال ہوا کہ ہم سب پر سکتہ طاری ہوگیا لیکن اللہ اللہ کرکے اس دن کا عذاب وہ ایک شخص جھیل گیا۔

ایسے ہزاروں واقعات ہمارے سکولوں میں روز ہوتے ہیں۔ بچے سوال پوچھتے ہیں اور انہیں ڈانٹ دیا جاتا ہے۔ بچہ دوبارہ سمجھانے کو بول دے تو اسے بدتمیزی سمجھ کر مارا جاتا ہے۔ بچہ اگر یہ کہ دے کہ اسے استاد کی سمجھ نہیں آ رہی تو استاد محترم باقاعدہ اسے اپنی توہین سمجھ کر ایکشن لیتے ہیں۔ ریاضی کا کام کرواتے ہوئے خلاصہ، گائیڈ استاد صاحب کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور سوال بورڈ پر حل کرنے کے بعد وہ کوئی ایک لفظ بھی بتانے سے کتراتے ہیں بلکہ الٹا حکم جاری کرتے ہیں کہ کل مکمل مشق حل کرکے لانی ہے۔ ایک بار میں نے پوچھ لیا کہ جناب کہاں سے کرکے لائیں ہمیں تو بس آپ نے ایک ہی سوال سمجھایا ہے تو استاد محترم نے کہا جہاں سے میں نے حل کیا وہاں سے تم بھی حل کرکے لے آنا۔

اب سمجھ سے باہر ہے کہ یہ غلطی اساتذہ کی ہے یا پھر ان کو اس عہدے پر لگانے والوں کی۔ سلیبس ہر روز بدل رہا ہے۔ اس قدر اپڈیٹ ہو چکا ہے کہ ہمارے موجود اساتذہ نے یہ سلیبس کبھی پڑھا ہی نہیں اور نہ ہی کوئی باقاعدہ ٹریننگ حاصل کی ہے پڑھانے کے لئے۔ جب ان کو یہ سلیبس سمجھ میں ہی نہیں تو نوکری بچانے کے لئیے گائیڈ یا خلاصہ اچھا سہارا ہے پر قوم کا مستقبل کہاں ہے اس سوال کا جواب کون دے گا۔

اس مسئلے سے نپٹنے کا بہترین حل یہ ہے کہ کوئی بھی مضمون پڑھانے کے لئیے اس مضمون کا ماہر تلاش کیا جائے یا اسی مضمون کو پڑھانے کا تجربہ رکھنے والا بندہ ڈھونڈا جائے۔ دوسرا اس استاد کا باقاعدہ ہر سال ٹیسٹ لیا جائے جس طرح سے طلباء کا امتحان لیا جاتا ہے کہ وہ استاد اپنے اس مضمون میں اتنا ماہر ہے کہ وہ آئندہ سال کے لئیے بچوں کو پڑھا سکے۔ اس کے بعد ممکن ہے کہ بورڈ پہ کھڑا ہو کر پڑھانے والا بندہ خلاصہ یا گائیڈ نہ لے اور ہماری اعلی پوسٹنگ پر مستقبل میں آنے والے لوگ نقل کرنے کی بجائے کچھ تخلیقی کام کرنے کے لئیے تیار ہو سکیں۔

Check Also

Hamari Agli Nasal

By Muhammad Waqas