Sunday, 17 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waqas
  4. Waldain Apne Bachon Ke Dushman

Waldain Apne Bachon Ke Dushman

والدین اپنے بچوں کے دشمن

سکول میں ایک عجیب واقعے نے دل دہلا کے رکھ دیا۔ میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ ہمارے معاشرے میں استاد کا کردار نبھانے والے لوگ ٹھیک نہیں ہیں۔ وہ اس فیلڈ میں بوجہ مجبوری آئے ہیں اور اس وقت آئے ہیں جب انہیں باقی کسی محکمے نے نہیں لیا۔ یہ بات کسی حد تک سچ ہے مگر ساری سچ نہیں۔ کچھ حقیقتیں اس کے برعکس بھی ہیں۔

بعض لوگ یقینا پوری محنت کرتے ہیں انبیا کے اس مقدس پیشے کو اپنانے کے لئے مگر اس سب کے باوجود ہمارا معیار تعلیم دن بدن گرتا جا رہا ہے۔ ابھی تو لگتا ہے کہ شاید بین الاقوامی سطح پر کوئی ایسا ادارہ ہی نہیں ہوگا جو اس قدر گراوٹ کا بھی تجزیہ کرے۔

وہ لوگ جو اس مقدس پیشے سے وابستہ ہیں اور بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں ان کے ساتھ انتظامیہ اور والدین کا رویہ ناقابل برداشت حد تک برا ہے۔ والدین کس طرح اپنے بچوں کی تعلیمی اور بعد میں عملی زندگی کو تباہ کر رہے ہیں یہ شاید وہ والدین جانتے بھی نہیں اورکبھی جان بھی نہیں پائیں گے۔ کیونکہ اتنا باریک نکتہ کسی بھی صورت اتنی آسانی اور بغیر تگ و دود کے سمجھ سے بالا تر ہے۔

مجھے مدرسے میں ایک بار پھینٹی لگ رہی تھی اور میں نے گھر جا کر شکایت کی کے مجھے مدرسے میں مارا جاتا ہے۔ تو میرے والدین نے مجھے یہ کہا کہ وہ آپ کے استاد ہیں وہ غلط نہیں ہو سکتے آپ اپنا کام دھیان سے کریں وہ نہیں ماریں گے۔ مجھے میرے والدین پر مدرسے والے استاد سے زیادہ غصہ آیا کہ انہیں میری فکر ہی نہیں۔ لیکن اس کے اگلے ہی دن مدرسے والے استاد کا رویہ مجھ سے مختلف تھا۔ لیکن کچھ عرصہ بعد اس بات سے پردہ اٹھا کہ میری غیر موجودگی میں میرے والدین باقاعدہ مدرسے والے استاد سے ملے اور ان سے کہا کہ استاد محترم یقینا ہمارے بچے نے ہی غلطی کی ہوگی لیکن ہم بس یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ یہ تعلیم حاصل کرنے سے بھاگ رہا ہے تو آپ اسکا خیال کریں۔

میرے والدین نے میرے استاد محترم کو میرے سامنے غلط ثابت نہیں ہونے دیا اور میرا یقین بڑھ گیا کہ میرا استاد سچا ہے اور حقیقت ہی بیان کرتا ہے۔

آج جدید دور جسے ٹیکنالوجی کا دور بھی کہتے ہیں۔ اس میں والدین باقاعدہ طور پر اپنے بچوں کے سامنے انکے اساتذہ کی تذلیل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بعض کو تو ہم نے یہ بھی کہتے سنا ہے کہ دیکھ لیتے ہیں تمہارے ٹیچر کو۔ کون ہے تمہارا استاد۔ ایک ڈائیلاگ تو بڑا مشہور ہے کہ تمہیں پتہ نہیں کہ میں کس کا بیٹا ہوں اور اس طرح ان بچوں کو موقع ملتا ہے اور وہ سیکھنے کی بجائے کم عمری میں واحیات قسم کے اختیارات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جیسا کہ اساتذہ ایسے بچوں کا نہ سبق دھیان سے سنتے ہیں اور نہ ہی ان کی کرداری صلاحیت پر دھیان دیتے ہیں۔ وقت گزرتا ہے اور یہ طبقہ معاشرےکا بدنما داغ بن کر ایک پاگل بیل کی طرح ہنہناتا پھرتا ہے۔

بعض اساتذہ جن کو مجبورا اس شعبے میں ٹھونس دیا ہے ان کا رویہ بھی ناقابل یقین حد تک برا ہے لیکن اس پہ بات پھر کبھی ہوگی ابھی تو بس یہ کہنا مقصود ہے کہ آپکا بچہ آپکا اثاثہ ہے۔ والدین اپنی ذمہ داری پوری کریں تو ایسے معاملات کبھی بھی آپکی نظر سے نہیں گزریں گے۔ بچے کو مارنا کسی بھی صورت درست نہیں۔ لیکن اس بچے کی کرداری صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لئے ان کے ساتھ سختی سے پیش آنا بعض اوقات ضروری ہو جاتا ہے۔

والدین اپنے بچوں کے اس وقت دشمن بنتے ہیں جب وہ غلط کا دفاع کرتے ہیں۔ معاشرے میں پیدا ہونے والے 100 بچوں میں مستقبل کے ڈاکٹر، انجینئر، بزنس مین، مزدور اور کسی بھی فن کے ماہر لوگ موجود ہوتے ہیں۔ فرض کریں کہ ایک بچہ ڈاکٹر بننے کے قابل تھا۔ ذہین تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کی کانٹ چھانٹ نہیں کی گئی اور پھر قد آور درخت بننے کے بعد اس بچے کا رویہ کیسا ہوگا۔ وہ کس طرح سے اپنے معاشرے کی خدمت کرے گا اس کا جواب میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔

Check Also

Gilgit Baltistan Aur Chitral Mein Khud Kushiyan

By Amirjan Haqqani