Sunday, 17 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waqas
  4. Lalach Buri Bala Hai

Lalach Buri Bala Hai

لالچ بری بلا ہے

جاوید چوہدری صاحب کا ایک کالم کچھ دن پہلے نظروں سے گزرا جس میں وہ ایک بادشاہ، درویش، اور سوالی کا قصہ سنا رہے تھے۔ بحیثیت انسان انہوں نے ایک کمال فطرت کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ سچ پوچھیں تو یہ ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ ہم لوگ لالچ کے دائرے کے گرد اس طرح چکر کاٹ رہے ہیں جیسے یہ ہم پہ فرض ہے۔

درویش نے یقینا بادشاہ کو زندگی میں سکون کا گر سکھا دیا پر اگلی کہانی کون بتائے گا۔ کیا بادشاہ کو درویش کی بات سمجھ میں آگئی۔ کیا بادشاہ نے درویش کی بات مان کر زندگی کی آسائشوں اور لالچ سے توبہ کر لی۔ تو جواب ہے نہیں۔ بادشاہ نے نہ تو توبہ کی اور نہ ہی اپنے لالچ کو ختم کیا بلکہ تلوار اٹھائی اور نئے علاقے کو کوئی بھی وجہ بنا کر فتح کرنے نکل پڑا۔

تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ہمیں لالچ بری بلا ہے کا درس دیتی ہوئی کتابوں کے انبار ملیں گے۔ ہر کتاب اسے اپنے ڈھنگ سے بیان کرتی ہے۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ اس سب کے بعد بھی لوگ اس چیز سے کیوں نہیں نکل پائے؟ اس سوال کا جواب جاننے سے پہلے میں جاوید چوہدری صاحب کے کالم کا وہ حصہ بہت مختصر بیان کرنا چاہوں گا۔

بادشاہ سکون کی تلاش میں درویش کے پاس جاتا ہے۔ درویش جنگل کے قریب ایک جھونپڑی میں رات بسر کرتا اور سارا دن جنگل کی سیر کے ساتھ تازہ پھلوں اور چشموں سے تازہ پانی پی کر اپنی زندگی بسر کر رہا تھا۔ اب درویش اس خوبصورت دنیا کی لذت سے آشنا نہیں تھا۔ اسے اس بات کی کیا خبرکہ دنیا کتنی نعمتوں سے بھری پڑی ہے۔ شہر کی آسائشوں اور اس کی عنائیتوں کی لذت سے محروم شخص کیسے جان سکتا ہے کہ شہر اصل میں کیا ہے۔

درویش بادشاہ کے ساتھ اس کے دربار آتا ہے اور کسی سوالی کو بلانے کا کہتا ہے۔ سوالی کے آنے پر درویش بادشاہ کو کہتا ہے کہ اسے کہو شام ہونے سے پہلے جتنی زمین کے گرد تم دائرہ مکمل کر لو میری سلطنت میں سے وہ رقبہ تمہارا ہوگا۔ سوالی بھاگتا ہے اور بھاگتا ہی چلا جاتا ہے۔ زیادہ کے لالچ میں وہ واپس آنا بھول جاتا ہے اور جب واپسی کے لئیے دوڑتا ہے تو منزل دور اور دائرہ مکمل ہونے کے امکانات صفر ہو چکے ہوتے ہیں۔ مگر سوالی سر دھڑ کی بازی لگا کر دائرہ مکمل کرنے کے لئیے دوڑتا ہے پر آخری لمحے دائرہ مکمل ہو جاتا ہے اور سوالی کی سانسیں بھی۔

درویش کا کہنا تھا کہ زندگی کی آسائشوں سےجان چھڑوا کر لالچ کو دبا کر آپ زندگی کی حقیقی خوشی پا لیں گے۔

شہر اور جنگل کی زندگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ فوری طور پر نئی چیزوں کو قبول نہیں کرتی۔ اس پہ اعتراض اٹھانا اور حقیقت بتانے والے پر حملہ آور ہونا لوگوں کی فطرت میں شامل ہے۔ شہر کی زندگی مقابلے اور لالچ سے لدی پڑی ہے۔ اسی لالچ کی وجہ سے جہاں ہزاروں لوگ تباہ ہوئے ہیں وہیں گنے چنے لوگ فیکٹریوں، ملوں اور سلطنتوں کے حکمران بن بیٹھے ہیں۔ دور سے دیکھنے والوں کو وہ لوگ سکھی اور خوشحال نظر آتے ہیں۔ اس لئیے اس معاشرے کو آپ یہ کیسے سکھا سکیں گے کہ ہمارا وزیر اعظم یا ہمارے وزرا یا ہماری بیوروکریسی ایک مایوس کن اور درد بھری زندگی گزار رہی ہے۔

اور پھر لالچ کو کیسے چھوڑا جائے اور ان آسائشوں سے کیسے منہ موڑا جائے۔ اس کے لئے تفصیلی گفتگو درکار ہے۔ میری جاوید چوہدری صاحب سے گزارش ہے کہ وہ لالچ کو چھوڑنے اور آسائشوں والی زندگی سے کنارہ کشی کے حوالے سے کچھ بتائیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کیوں کہ لالچ بری بلا ہے۔ لالچ تباہ کردیتا ہے۔ لالچ سے قومیں اور نسلیں تباہ ہوگئی ہیں۔ یہ ساری تو وہ باتیں ہیں جو بار بار دہرائی جا رہی ہیں۔ اصل مسئلہ کوئی بیان کرنے کو تیار ہی نہیں اور وہ یہ ہے کہ آپ اس بیماری سے جان کیسے چھڑوا سکتے ہیں۔

Check Also

Hamari Agli Nasal

By Muhammad Waqas